تسنیم فرزانہ (بنگلور)
بر صغیر میں اسلام عربوں کی تجارت کے ذریعے سے پہنچا – یہ عرب تاجر ایک حیات آفرین تہذیب و تمدن، مؤثر شخصیت اور دل پذیر اخلاق و کردار سے مالا مال تھے – اس وقت ہندوستان کا معاشرہ ذات پات اور اونچ نیچ، رنگ و نسل کے امتیاز پر قائم تھا، چھوت چھات کا رواج عروج پر تھا، عربوں کے عقائد و عبادات کو دیکھ کر مالابار کے چیرومن پیرومل کا آخری راجہ بہت متاثر ہوا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گیا اس نے عرب کے ایک تاجر کو کنانور کا راجہ بنا دیا – کالی کٹ کا زیمورین بھی عرب تاجروں کی بڑی قدر کرتا تھا.
اسی طرح ہندوستان کے مشرقی ساحل پر بھی عرب تاجر دسویں صدی تک پہنچ چکے تھے، اور وہ یہاں بلا تکلف شادی بیاہ بھی کر لیتے، جس سے مسلمانوں کی آبادی بڑھتی رہی، ان کی معاشرت اور مذہبی رواداری دیکھ کر ہندوستان کے اصلی باشندے متاثر ہوتے اور حلقہء بگوش اسلام ہوجاتے، اس تاریخی حقیقت کا اعتراف پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اپنی کتاب “ڈسکوری آف انڈیا”( صفحہ 525_526)میں کیا ہے _
اس کے بعد مسلم سلاطین کا عہد آیا، انہوں نے بھی ہندی ثقافت کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے روشناس کروایا پھر انگریز اس ملک میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے، یہاں کی خوشحالی اور مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کرنے کی جد و جہد میں لگ گئے – مسلمانوں نے سب سے اول انگریزوں کے ارادہء بد کو بھانپ لیا اور ان کو اس ملک سے باہر نکالنے کی کوشیش شروع کیں.
جنوب میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسے سورماؤں نے فرنگیوں کے خلاف کمر کس لی لیکن اپنے ہی ملک کے غداروں کی لپیٹ میں آ گئے – اس کے ٹھیک تین سال بعد مولانا شریعت اللہ بنگالی نے( 1840 – 1781) فرائض تحریک کے نام سے بنگال میں انگریزوں کے خلاف جذبہء جہاد پیدا کیا، یہ تحریک کسانوں اور مزدوروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور عوام تحریک کے قائد کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے اور انگریزی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا، لیکن ہندو اور انگریز دو عظیم طاقتوں اور زمینداروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے یہ تحریک چند سالوں میں ہی ختم ہو گئی، اس تحریک کا تفصیلی ذکر انگریز مؤرخ ڈبلیو بی بنٹر کی کتاب “انڈین مسلمانس” میں ملتا ہے.
فرائضی تحریک کے خاتمے کے بعد سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے تحریک مجاہدین کی بنیاد ڈالی، اور ہند کی تاریخ میں پہلی بار احیائے دین اور اقامت حکومت الہیہ کے لئے منظم و مرتب جد و جہد کی گئی – آپ کا مقصد محض انگریزوں کو ملک سے پاک کرنا نہ تھا بلکہ اسلام کے فریضے کو پایہء تکمیل اور خدا کے دین کی حکومت قائم کرنا تھا – بہت سے علمائے کرام نے ان کا ساتھ دیا اور شہید ہوئے، مشہور زمانہ بالا کوٹ کا معرکہ ہوا.
یہ تحریک بالا کوٹ کی شہادت گاہ سے نکل کر پورے ملک میں آزادی کی لہر لے کر اٹھی، خود انگریز مؤرخین اس تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں 66 خلفاء نے سید احمد شہید کے مشن کو زندہ رکھا اور انگریزوں کا ناطقہ بند کرتے رہے _
اس کے بعد وقتاً فوقتاً بہت سی تحریکوں نے جنم لیا ان میں پانچ تحریکات آزادی قابل ذکر ہیں –
تحریک آزادی 1857 ء
_______
یہ تحریک مسلمانوں نے اس لئے چلائی تھی تاکہ غیر ملکی اقتدار سے نجات پا کر اسلامی تہذیب و تمدن کا احیاء کیا جا سکے
جس زمانے میں کانگریس اور قومی تحریکات کا وجود نہ تھا، ہندو اور دوسری قومیں انگریزوں کی گود میں سو رہی تھیں یا ان کی سرپرستی میں معاشی و سماجی تحفظات حاصل کر رہی تھیں، مسلمان مجاہدین نے سر دھڑ کی بازی لگا کر انگریزی اقتدار کو چیلنج کیا، گو ان کی تعداد بہت کم تھی لیکن جان و مال کی قربانیوں سے وہ تاریخ آزادی پر اپنے نقوش ثبت کر گئے –
اس تحریک کے روح رواں مولوی احمد شاہ مدراسی، مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا رحمت اللہ اور دوسرے بزرگان دیو بند ہیں، آپ لوگ سن ستاون کے ان ممتاز مجاہدین میں سے ہیں جن سے سخت دشمنی کے باوجود انگریزوں نے ان کی بے حد تعریف کی ہے.
میلی سن لکھتا ہے کہ “اگر محب وطن اسے کہتے ہیں جو اپنے وطن کی برباد شدہ آزادی کے حصول کے لئے سازشیں کرے اور لڑے تو یقیناً مولوی ایک سچا محب وطن تھا – اس نے اپنی تلوار کو (میدان جنگ سے باہر) قتل کے داغ سے آلودہ نہ ہونے دیا – اس نے قتل کے کسی بھی واقعہ سے چشم پوشی گوارہ نہ کی وہ ان اجنبیوں کے خلاف بلند ہمتی سے لڑتا رہا جو اس کے وطن پر مسلط ہو گئے تھے اور اس کی یاد تمام قوموں کے مخلصوں اور بہادروں کی جانب عزت و احترام کی مستحق ہے ”
مولوی احمد شاہ مدراسی ایک زبردست مقرر تھے، عوام میں وعظ و نصیحت کے لئے پر جوش تقریریں کیا کرتے تھے ان کی تقریروں میں ہزاروں ہندو و مسلمان جمع ہوتے تھے – آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا، ان کی ہر دل عزیزی کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم سے پولیس تک نے انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا –
مولانا فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ مرتب کرایا جس پر علمائے دہلی سے دستخط لئے گئے اور یہی فتویٰ مولانا کی گرفتاری کا سبب بنا اور آپ کے لیے حبس دوام کا حکم صادر ہوا ان کی کتابیں، جائداد، مال و متاع، اہل و عیال کے رہنے کا مکان غرض ہر شئیء ضبطی میں آ گئی –
مولوی رحمت اللہ کیرانوی عیسائیت کے خلاف شمشیر برآں اور ایک زبردست مناظرہ باز تھے ایک مناظرہ میں عیسائی پادری کو رسوا کن شکست دے چکے تھے جب انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان ہوا تو کیرانہ میں مجاہدین کی فوج کے سالار یہی تھے، مولانا کی گرفتاری کا حکم ہوا تو یہ مکہ ہجرت کر گئے –
ان کے علاوہ عظیم اللہ خان، جنرل بخت خاں، شہزادہ فیروز، مولانا لیاقت علی آلہ آبادی، ڈاکٹر وزیر خاں، نواب علی بہادر اور نواب تفضل حسین وغیرہ مجاہدین کا نام آتا ہے جنہوں نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جان و مال کی قربانیاں دیں –
جنگ آزادی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی تو انگریزوں کے قہر و غضب کا خصوصی نشانہ مسلمان بنے،ہلاکت خیزی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا اور لاکھوں مر و عورت، بچے، بوڑھے گولیوں کا نشانہ بنے، ہزاروں افراد کو پھانسی دی گئی، لارڈ وابرٹ کے بقول دہلی شہر کا منظر اس درجہ ہیبتناک اور لرزہ خیز تھا کہ گھوڑے بدک رہے تھے اور نتھنے پھلا رہے تھے کیونکہ پوری فضا بیماری اور لاشوں کے سڑنے کی بدبو سے لبریز تھی –
ایک معاصر مؤرخ لکھتا ہے کہ
“ستائیس ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی – سات دن برابر قتلِ عام رہا اس کا حساب نہیں، بچوں کو تک مار ڈالا عورتوں سے جو سلوک کیا بیان سے باہر ہے جس کے تصور سے دل دہل جاتا ہے،”
مجاہدین آزادی کو طرح طرح کی جسمانی و روحانی اذیتیں دی گئیں، معاش کے دروازے بند کر دئے گئے انہیں ہر حیثیت سے ذلیل و خوار بنانے کی کوشش کی گئی – لیکن یہ ساری کوششیں ناکام رہیں اور مسلمان اپنی تہذیب و تمدن اور مذہب و ایمان سے علیحدہ ہونے تیار نہیں ہوئے.
تحریک ریشمی رومال
_______
یہ تحریک انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کرنے اور ہندوستان سے انہیں نکال باہر کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی اس تحریک کے سرخیل متعدد علماء اور دانشور تھے لیکن شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی شخصیت ان سب پر حاوی تھی، آپ 1851 عیسوی میں بریلی میں پیدا ہوئے، مختلف علماء کرام سے درس لیا اور دینی علوم میں مہارت پیدا کی، آپ کا کارنامہ علمی دنیا میں کافی وزن رکھتا ہے – آپ نے گیارہ کتابیں تصنیف فرمائیں.
انگریزوں سے نفرت آپ کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،چنانچہ جب ترک موالات کا استفتاء پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے تین شاگردوں، مفتی کفایت اللہ، مولانا سید احمد حسین مدنی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو جمع کر کے فرمایا کہ یہ فتویٰ آپ لوگ لکھیں ان حضرات کو تعجب ہوا کہ آپ کی موجودگی میں ہم کیا لکھیں تو فرمایا “مجھ میں انگریزوں سے نفرت کا جذبہ اتنی شدت لئے ہوئے ہے کہ مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں ہے کہ حدود کی رعایت ہو سکے گی اوراللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ،” اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن چھوڑ بیٹھو” اس لئے آپ ہی لکھیں
شیخ الہند نے ایک طرف مسلم نوجوانوں کو اسلام کے عقائد و افکار سے روشناس کرانے کے لئے سرحد پر مدارس کے قیام زور دیا تاکہ دینی علوم کی اشاعت ہو دوسری طرف آپ نے اندرون ہند اور بیرونی ممالک میں جگہ جگہ عسکری مراکز قائم کئے –
پروفیسر سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ “جس وقت انڈین نیشنل کانگریس حقوق طلبی کی جنگ لڑ رہی تھی، حضرت شیخ الہند اس حکومت کا تختہ ہی الٹ دینے کا نقشہ تیار کر رہے تھے”
جب آپ کے خلاف ہندوستان میں کافی جاسوسی ہونے لگی اور یہاں رہ کر کام کرنا مشکل ہو گیا تو حجاز چلے گئے –
انگریزوں سے آپ کی اس سخت دشمنی کا اندازہ خود ان کو بھی تھا – سر جیمز مبسٹن گورنر یو پی نے ایک موقع پر کہا کہ: “اگر اس شخص کو جلا کر راکھ کر کر دیا جائے تو وہ بھی اس کوچہ سے نہ آڑے گی جس میں کوئی انگریز رہتا ہو”
ایک اور موقع پر اس نے کہا کہ: “اس شخص کی بوٹی بوٹی بھی کر دی جائے تو ہر بوٹی سے عداوت ٹپکے گی”
مولانا عبید اللہ سندھی کابل میں اس تحریک کا ساتھ دے رہے تھے انہوں نے امیر افغانستان سے کی تو امیر حبیب اللہ خان نے ترکی پر حملے کی اجازت دے دی، مولانا سندھی نے شیخ الہند کو ایک پیغام ریشمی رومال پر لکھ کر بھیجا جو انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا، اسی کی مناسبت سے پوری تحریک کا نام “ریشمی رومال تحریک “پڑ گیا _19 فروری 1917 کی تاریخ انقلاب کے لئے مقرر کی گئی، لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی چنانچہ حسین احمد مدنی، شیخ الہند، مولوی عزیز گل اور حکیم نصرت حسین وغیرہ کو گرفتار کر لیا گیا اور مدتوں مالٹا کی جیل میں سختیاں برداشت کرنی پڑیں.
30 نومبر 1920 کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی وفات ہوئی تو غسل دینے کے لئے جب تختہ پر لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ تھی اور اس پر ضرب کے نشان تھے – رفقائے مالٹا نے اس وقت انکشاف کیا کہ یہ نشانات ان دنوں کے ہیں جب آپ مالٹا میں اسیر تھے، آپ پر درے برسائے جاتے تھے لیکن حضرت نے انہیں وصیت کر دی تھی کہ ان مصائب کا کہیں ذکر نہ ہو –
اس تحریک کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بانی و رہبر وقت کا شیخ طریقت اور عالم ربانی ہے، وہ نہ فرانس کے
کی تاریخ پڑھی ہے نہ روسو و مانٹسکو کے انقلاب انگیز لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے، اس کا شیرازہء حیات قال اللہ وقال الرسول اور اس کی زندگی کا خمیر اتباع سنت نبوی ہے، وہ دیو بند کے ایک حجرے میں بیٹھ کر وقت کے عظیم ترین استعمار سے ٹکر لینے کا منصوبہ بناتا ہے اور باقاعدہ اس کے لئے تحریک قائم کرتا ہے اور راہ کی ساری آزمائشوں کا مقابلہ کرتا ہے –
اس تحریک کی ناکامی سے قطع نظر اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آزادی کی لہر تیز ہو گئی اور علماء و طالبان علم کی حمایت کھل کر اسے حاصل ہو گئی جو تحریک خلافت کی شکل میں صورت پذیر ہوئی –
تحریک خلافت اور مولانا جوہر
———————
اس تحریک کے روح رواں مولانا محمد علی جوہر تھے – مولانا محمد علی جوہر ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، آپ انیسویں صدی کے آخر میں ایک زبردست مسلم لیڈر، اہل قلم اور پر جوش خطیب، درد مند مسلمان اورسچے عاشق رسول اور اسلام کے دیوانے کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور مسلمانوں کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دیتے ہیں – ان کے اندر مرنے مارنے کا جذبہ اور اپنی تہذیب و انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لئے جد و جہد کرنے کا داعیہ ابھار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی اس راہ میں جھونک دیتے ہیں
اس تحریک میں ان کی والدہ محترمہ کا بھر پور ساتھ تھا، مولانا نے تحریک خلافت چلائی تو ملک کا کونہ کونہ “بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دے دو” کے نعرے سے گونج اٹھا، اور تمام مُسلمانوں کے اندر ایک نئی تازگی عود آئی، اور ان میں خود اعتمادی و بیداری پیدا کر دی، وہ قید فرنگ سے آزاد ہو کر اپنی دنیا آپ تعمیر کرنے پر آمادہ ہوئے – اس تحریک نے آزادی حاصل کرنے اور اپنے زور بازو پر اعتماد پیدا کرنے کا داعیہ ابھارا، اس تحریک نے عوام اور مسلم علماء کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا-
14 نومبر 1914 میں جب یوروپ کی جنگ عظیم میں ترکی، جرمنی کے مخالف کی حیثیت سے برطانیہ کے مقابل آ گیا تو مولانا محمد علی جوہر نے کامریڈ اخبار میں ایک بڑے لمبے چوڑے مقالے میں” دا چوائس آف ترکس” کے زیر عنوان جو ٹائمز آف لندن کے مقالے کے جواب میں تھا لکھا. اور ترکی کی حمایت کی، نتیجے کے طور پر کامریڈ بند کر دیا گیا اور مولانا نظر بند کر دئے گئے –
انگریزوں نے مولانا محمد علی جوہر کو بیجاپور کی جیل میں اور ان کے بڑے بھائی کو راجکوٹ کی جیل میں مقید کر دیا.
مولانا اپنے وطن کی آزادی کے بہت بے چین رہتے اس سلسلے میں ایک واقعہ قابل توجہ ہے جو مفتی فلسطین امین الحسینی صاحب نے ظاہر فرمایا کہ محمد علی جوہر جب حجاز تشریف لے گئے تو ایک رات کو بہت دیر کے بعد امین الحسینی کا مسجد حرام کے اندر خانہ کعبہ کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھتے کیا ہیں کہ اس تاریک رات میں غلاف کعبہ پکڑے ہوئے ایک شخص خانہء کعبہ میں صاحب خانہ سے مصروف راز و نیاز ہے، اس کی آواز بیٹھی ہوئی ہے گریہء گلوگیر ہے، گردن سجدہ میں جھکی ہوئی ہے اور وہ گڑگڑا کر رو رو کر عرض کر رہا ہے کہ “اے کار ساز عالم مجھے تو جہنم میں جھونک دے، میری کسی آرزو کو پورا نہ کر لیکن ایک بار ان آنکھوں کے سامنے احیائے خلافت راشدہ کر کے وہ مبارک و مسعود زمانہ پھر واپس لا دے جس کو کانوں نے سنا ہے مگر جس کی دید سے آنکھیں اب تک محروم ہیں، ہندوستان کو آزادی عطا فرما تاکہ پنجہء اغیار سے آزاد ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے ”
مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ” میں حیرت سے یہ عجیب و غریب منظر دیکھ رہا تھا، جب اس شخص نے اپنی پیشانی سجدے سے اٹھائی تو دیکھتا کیا ہوں وہ تو زعیم مشرق محمد علی جوہر ہے جس کا نورانی چہرہ آنسوؤں سے تر ہے”
تحریک خاکسار
———————
1931 میں علامہ عنایت اللہ مشرقی نے تحریک خاکسار کی بنیاد ڈالی، انہوں نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لئے جرمنی کی فاشزم کو اپنے سامنے بطور نمونہ رکھا، خاکی رنگ کا لباس، داہنے بازو پر اخوۃ کا بیج اور ہاتھ میں بیلچہ ان کا شعار قرار پایا -خاکسار فارسی الفاظ “خاک” اور “سر” کا مرکب ہے جس کا مطلب ناچیز، ہیچ اور حقیر کے ہیں مطلب اس کا یہ تھا کہ یہ تحریک اور اس کے کارکنان انسانیت کے مخلص اور بے لوث خادم ہیں اور قوت و سطوت کا استعمال انسانوں کی بھلائی کے لئے کیا جائے گا –
اس تحریک کے چند بنیادی اصول، فرائض وقوانین بھی مرتب کئے گئے تھے
اس تحریک کے خاص ہمنوا اور کارکن سر سید، رضا علی، ڈاکٹر سر ضیاء الدین، آغا غضنفر علی شاہ، سکندر حیات اور بہت سارے لوگ تھے – خاکسار تحریک مسلمانوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ممبران یہودی، عیسائی، برہمو سماجی اور وہ تمام لوگ بن سکتے تھے جو خدا اور مذہب پر یقین رکھتے، یہ اتحاد اور وحدتِ انسانیت کے داعی تھے، اس تحریک کا خاص نشان نظم و ضبط، فوجی تنظیم اور محنت و مشقت تھا، بلا لحاظ مذہب و ملت تمام فرقوں کے یہ خادم تھے، یہ اتحاد اور وحدت انسانیت کے داعی تھے عروج کے زمانے میں اس کے کارکنوں کی تعداد تقریباً پندرہ لاکھ تھی لیکن 1944 میں یہ تعداد گھٹ کر بیس ہزار تک رہ گئی تھی –
اس تحریک کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ علامہ مشرقی وہ مادیت زدہ خیالات تھے جنہیں انہوں نے اپنی کتاب تذکرہ اور خطبوں اور ترجمانوں میں بیان کئے، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس تحریک نے نوجوانوں کے اندر اپنی دنیا تعمیر کرنے کا داعیہ ابھارا –
تحریک اہل حدیث
————————
سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے جہاد و تنظیم اور شہادت و قربانی کی جو لازوال مثال قائم کی تھی وہ ان کے جانشینوں نے پوری آب و تاب کے ساتھ باقی رکھی اور جنگ آزادی 1947 تک انگریزوں اور سکھوں کے خلاف معرکہء آراء رہے، 1831 سے 1838 تک کا دور مولانا نصیر الدین دہلوی نے چار مرتبہ دشمنوں سے ٹکر لی – 1845 سے 1897 تک مولانا ولایت علی، مولانا عنایت علی، مولانا عبد الکریم وغیرہ کا زریں دور ہے – اس عرصے میں پندرہ بار دشمنوں کو شکست کھا کر بھاگنا پڑا – پھر آزادی تک صلح و جہاد کا دور نشیب و فراز پر مشتمل ہے اس عرصے میں امیر نعمت اللہ، مولانا شبیر محمد، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی مختلف معرکوں میں رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں
اس سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی بالا کوٹ میں شہادت کے بعد یہ تحریک جہاد سرد نہیں پڑ گئی – اسے ضرب کاری تو ضرور لگی لیکن دشمنانِ اسلام کے خلاف معرکہ آرائی جاری رہی، اسلامی نظام کے قیام کی جد و جہد مدھم نہ ہوئی بلکہ جنگ آزادی تک مسلسل مختلف رہنما اس کی قیادت کرتے رہے اورخون کی چھینٹوں سے گلشن امت اور دبستان اسلام کی آبیاری کرتے رہے- انہی مساعی جمیلہ کو دیکھ کر مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے مخصوص انداز یوں خراج تحسین پیش کیا :
“سید صاحب کے خلفاء ہر صوبہ و ریاست میں پہنچ چکے تھے اور اپنے اپنے دائرے میں تجدید، اصلاح اور تنظیم کا کام انجام دے رہے تھے، مشرکانہ رسوم مٹائے جا رہے تھے، بدعتیں چھوڑی جا رہی تھیں، نام کے مسلمان کام کے مسلمان بن رہے تھے جو مسلمان نہ تھے وہ بھی کلمہ پڑھ رہے تھے، شراب کی بوتلیں توڑی جا رہی تھیں، تاڑی اور سیندھی کے خم لنڈھائے جا رہے تھے، حق و صداقت کی بلندی کے لئے علماء حجروں سے اور امراء ایوانوں سے نکل نکل کر میدانوں میں آ رہے تھے اور ہر قسم کی لا چاری و غربت کے باوجود ملک میں اس تحریک کے سپاہی پھیلے تھے اور مجاہد تبلیغ و دعوت میں لگے تھے ”
– 1906 میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نام سے باضابطہ اس تحریک کی تشکیل بھی ہو گئی تھی، ملک بھر میں جلسے ہوتے جن میں شرک و بدعت کے خلاف دلائل کے ساتھ ساتھ کفر و الحاد کو توڑنے کی کوشش کی جاتی، مسلمانوں پر َاس کا جو اثر پڑا وہ اس طرح سے ہے
تفسیری خدمات :
مجلہ الجامعتہ السلفیہ کے تعلیم نمبر نے تقریباً 60 ایسے علمائے حدیث کا نام گنایا ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی، امت کو قرآن سے برای راست جوڑنے کی کوشش کی، جن میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی، نواب صدیق حسن خان بھوپالی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی قابل ذکر ہیں –
خدمات حدیث :
اس مکتبہ فکر نے حدیث کی سب سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں، جن میں سید مرتضیٰ بلگرامی، نواب صدیق حسن خاں قنوجی، سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا شمس الحق عظیم، مولانا عبد الرحمن مبارک پوری اور عبد السلام بستوی وغیرہ شامل ہیں
اسلام کا دفاع :
اسلام پر ہر چہار طرف سے جو جارحانہ حملے کئے گئے ان کا بھر پور جواب دینے کی کوشش کی گئی اور عیسائیوں، قادیانیوں، اور آریوں کے خلاف مناظرے ہوئے اور ہر میدان میں ان کا بھر پور مقابلہ کیا گیا، اس طرح اس مکتب فکر اور تحریک کی بدولت کارانہ تقلید اور فقہی جمود کا طلسم ٹوٹا اور قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ
ممکن ہو سکا، مسلم معاشرے سے بہت سے غیر اسلامی رسوم و روایات اور بدعات و خرافات کا خاتمہ ہوا – شدھی تحریک، عیسائی مشن اور قادیانی حملوں کو ناکام بنایا گیا اور مسلمانوں کے اندر عرصے تک اس تحریک نے جہاد و شہادت کا شعلہ بھڑکائے رکھا اور غیر اسلامی قوتوں سے ساز باز اور مصالحت نہ کی –
جنگ آزادی 1947 تک یہ سلسلہ باقاعدہ چلتا رہا.
(دعوت و جہاد، بر صغیر کے تناظر میں سے ماخوذ)