✒️:امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
کچھ سالوں پہلے جنوبی ایشیاء کا ایک بڑا حصہ برصغیر جو ہندوستان کے نام سے موسوم تھا، جس میں موجود ہندوستان، پاکستان، نیپال، بھوٹان، بنگلادیش، سریلنکا، وغیرہ بھی شامل تھے۔
جہاں انگریزی حکومت کا قبضہ تھا، جن کی سلطنت کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ انکے سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوسکتا۔
اتنی بڑی سلطنت کے مالک اور طاقتور ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بدولت اور جد وجہد کے بعد 14/ اگست 1947 کا سورج انگریزی حکومت کو اپنے ساتھ لئے غروب ہوگیا تھا۔ اور 15/ اگست 1947 کو مکمل طور پر برصغیر ”ہندوستان“ آزاد ہوگیا۔
یہی وہ ملک ہے جس کی آزادی کیلئے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے فتویٰ صادر کرتے ہوئے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا حکم دیا تھا۔ یہی وہ ملک ہے جس کی آزادی کیلئے حجتہ الاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ نے 1866 میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تھی۔ جہاں سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ جیسے ہزاروں فرزندانِ اسلام نے جنم لیا۔ جنکا وجود ہی انگریز کیلئے موت کا کڑکا تھا۔
جنہوں نے برادران وطن کے ساتھ مل کر انگریزی حکومت کے خلاف جنگیں لڑی اور بالآخر 15/ اگست 1947 کا سورج آزادی کا تحفہ لئے طلوع ہوا اور ہمارا پیارا ملک ہندوستان آزاد ہو گیا۔
ہندوستان تو آزاد ہوگیا لیکن انگریز ملک بدر ہوتے ہوتے نفرت اور اختلاف کا ایک پودہ لگا گیا، جسکی وجہ سے ملک کا بٹوارہ بھی ہوگیا۔
الغرض ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے ایک حصہ ہندوستان بن گیا اور دوسرا پاکستان بن گیا۔ مسلمانوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوجاتے لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی خوشی اور مرضی سے ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا۔ پھر کچھ سال گزرنے کے بعد 26/ جنوری 1950 میں ہمارا پیارا ملک جمہوری ملک بن گیا۔ لیکن افسوس کہ جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلہ سلوک ہونے لگا۔ ہر آئے دن ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے، مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات کے تحت زنداں کے پیچھے بند کیا جانے لگا، مسلم ماں بہنوں کی عزت و آبرو کو لوٹا جانے لگا۔
حد تو یہ ہوگئی کہ ہمارے دین و شریعت میں براہ راست مداخلت کیا جانے لگا اور مذہب پر پابندی عائد کرنے کا نظریہ پیش کیا جانے لگا۔
اسکے علاوہ فرقہ پرست طاقتوں نے بھی روز لگانا شروع کیا اور ملک کے ماحول کو ایسا بگاڑ دیا کہ ہر کوئی مسلمان کو دہشت گرد سمجھنے لگا۔
ملک کے سب سے بڑے وفادر طبقے کو ”دیش دروہی“ کا لقب دیا جانے لگا۔ مسلمانوں کو ایسی ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا کہ وہ اپنے وفاداری کا ثبوت دینے پر مجبور ہونے لگا۔ مسلمانوں کو جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ مسلمانوں کی اسی پریشانی و مظلومیت کو دیکھتے ہوئے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا:
اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ،
بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر مسلمان نہ ہوتے تو یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا۔ کیونکہ جہاد اور شہادت کا تصور فقط مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے دیگر مذاہب و ادیان اس سوچ و فکر سے خالی و ناآشنانہ ہیں۔
ارے جن اسلاف نے ہمیں غلامی سے آزاد کروایا تھا، اپنا خون پانی کی طرح بہاکر ہمیں بچایا تھا،اور اس ملک کو آزاد کرانے میں تن من دھن کو لٹایا تھا، اپنے سروں کو پھانسی کے پھندے سے لگایا تھا، اور پھر بڑی مشقتوں سے ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا آج پھر ہم اس غلامی کے شکار ہو چکے ہیں۔
کیونکہ ہم نے ملک تو آزاد کروالیا، خطہ زمین تو حاصل کرلیا، دہلی اور گجرات کو تو سجا لیا، یوپی اور بہار کو تو بنالیا، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ذہنی اوروثقافتی طور پر ہم ابھی بھی اسیری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بظاہر ہم آزاد ہیں لیکن 75 سال بعد بھی ہم نادیدہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
کیونکہ اب یہ نئی نسل دین کو اپنے نئے نظریہ سے دیکھنے لگی ہے، اور لڑکیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے۔کسی اور کا نہیں۔
اور اسی جملے نے آدھی امت مسلمہ کی لڑکیوں کو برہنہ کر دیا۔
اور سب کی اپنی پرسنل لائف ہے، اس سوچ نے امت مسلمہ کے باپ بھائیوں کو بے غیرت کردیا۔
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، زنجیریں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دشمن نے ہمیں ہماری ذہنی صلاحیتوں، ہماری سوچوں کو جکڑا ہوا ہے اور ہم پاگلوں کی طرح ان کے اشاروں پر رشک کررہے ہیں، اور سوچ رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔
لیکن در اصل ہم آزاد نہیں رہے، کیوں کہ نہ ہمیں سیاست میں برابر آزادی ملی، نہ مذہب میں برابر آزادی ملی، جہاں بھی ہیں ڈر کر ہیں، جھاں بھی ہیں جھک کر ہیں، جہاں بھی ہیں اقلیت میں ہیں، نہ اپنے مذہب میں بالکل آزاد ہیں، نہ خلافت و سیاست میں بالکل آزاد ہیں، نہ کمانے اور کھانے میں بالکل آزاد ہیں، نہ مسجد و مدرسے میں بالکل آزاد ہیں، نہ اپنے نظریے میں بالکل آزاد ہیں، ہر طرف سے جکڑے ہوئے ہیں، کہیں فکری اور ذہنی طور پر جکڑے ہوئے ہیں، تو کہیں ظلم و بربریت کے زنجیر میں جکڑے ہوئے ہی۔
اسی لئے آج پھر سے عہد لینے کی ضرورت ہے! اے خدا کو ایک ماننے والوں، رسول اللہ کو آخری نبی اور انکے امتی ہونے کو تسلیم کرنے والوں اے قرآن و حدیث کو ماننے والوں، اے جنت و دوزخ پر ایمان لانے والوں،
اٹھو اور آگے بڑھو! ہندوستان کے اس 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر آؤ ہم سب مل کر عہد لیں کہ اس وطن عزیز کو ظلم و تشدد سے، جرم و بربریت سے، قومی و سیاسی فرقہ واریت سے، نفرتوں کی انگار سے، کرپشن و دھوکہ دھڑی سے، دلال و گودی میڈیا سے، مآب و سیاسی لنچنگ سے، ملک کے غداروں اور حقیقی دہشت گردوں سے، اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں سے، جہالت و ناگواری سے، بزدلی و احساس کمتری سے، ذہنی و فکری اذیت سے، اسلام میں نئے نظریات و افکار سے، غلط عقائد و تعلیمات سے، پھر ایک بار آزاد ہو جائیں اور عدل و انصاف کو، پیار و محبت کو قائم کرتے ہوئے اپنے اکابرین کی تاریخ کو دہرائیں۔
قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، انگریزوں کی سوچ کو نکال کر اسلامی تفکرات کو پیدا کرکے اسلام کے علمبردار بنیں۔