اکھلیش آریندو
گزشتہ مردم شماری کے مطابق بیڑی، قالین کی بنائی، کپڑوں اور کانکنی جیسے کاموں میں 5سے 14سال کے 43.53لاکھ بچہ مزدور لگے ہیں۔ منسٹری آف لیبر کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں سب سے زیادہ بچہ مزدور ہیں، جن کی تعداد 8لاکھ 98ہزار301ہے۔ اس کے بعد بہار میں بچہ مزدوروں کی تعداد 4لاکھ 51ہزار 590ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ، جھارکھنڈ، دہلی، اتراکھنڈ جیسی ریاستیں ہیں، جہاں بچہ مزدور زیادہ ہیں۔ یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ غیرسرکاری اعدادوشمار میں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غورطلب ہے کہ انہیں وہ بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں جو ان کے حقوق میں ہیں۔ اس لیے ان کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بچہ مزدور پہلے سے کہیں زیادہ استحصال کے شکار ہیں۔ ان کے خراب حالات کی ایک بڑی وجہ منصوبوں پر عمل درآمد نہ ہوپانا بھی ہے۔ ان کے لیے رہنے کے لیے گھر، پہننے کے لیے کپڑا اور بیماری کی حالت میں علاج کا مناسب انتظام نہیں ہے۔
بچہ مزدوروں کا سب سے بڑا مسئلہ بازآبادکاری کا ہے۔ اترپردیش اور جھارکھنڈ کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں بچہ بازآبادکاری کی حالت تقریباً صفر رہی۔ منسٹری آف لیبر کے اعدادوشمار کے مطابق اترپردیش میں 2018-19 میں 8020، 2019-2020 میں 10371 اور 2020-2021 میں 9363 بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی۔ وہیں جھارکھنڈ میں اسی مدت میں بالترتیب 1225، 2940 اور 3239بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی۔ لیکن بہار میں ایک بھی بچہ مزدور کی بازآبادکاری نہیں کی گئی۔ اتراکھنڈ میں محض 2019-2020 میں 62بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی اور ہریانہ میں 2018-2019 سے لے کر 2020-2021 تک محض171بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کی جاسکی۔
منسٹری آف لیبر اینڈ پلاننگ بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کے لیے 1988سے ہی بچوں کے قومی منصوبوں کے ذریعہ سے این سی ایل پی چلا رہا ہے، لیکن اس کی رفتار بہت دھیمی رہی ہے۔ کانچ، چوڑی، تالا، قالین، سلیٹ، ٹائل، ماچس، آتش بازی اور جواہرات کی صنعتوں میں کام کررہے بچوں کی بازآبادکاری کے لیے نویں پنچ سالہ منصوبہ میں 25کروڑ روپے مختص کیے گئے، لیکن اس سے بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کا مسئلہ ختم نہیں ہوا، جب کہ دسویں پنچ سالہ منصوبہ میں اس کی توسیع ڈیڑھ سو سے زیادہ اضلاع میں کی گئی۔ اس کے لیے 60کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ آج پورے ملک میں بچہ مزدوروں کے لیے این سی ایل پی سینٹر ہیں، لیکن ان کے لیے خصوصی اسکول، الگ سے روزگار پیدا کرنے، صحت سے متعلق منصوبوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔
دنیا کے کل بچہ مزدوروں میں سے ایک تہائی ہندوستان میں ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں بچپن سب سے زیادہ حقوق سے محروم ہے۔ 2019 میں ورلڈ چائلڈ لیبر ڈے کی تھیم تھی- ’بچوں کو کھیتوں میں نہیں، اپنے خوابوں پر کام کرنا چاہیے‘۔ مگر کیا اس تھیم پر دنیا میں کوئی عمل ہوا؟ نیشنل چائلڈ لیبر پالیسی (این سی ایل پی) کو بچہ مزدوری(ممانعت اور ضابطہ) ایکٹ1986(Child Labor (Prohibition and Regulation) Act 1986) کے بعد بچہ مزدوروں کے حالات میں جو تبدیلی آئی، وہ ویسی اصلاح نہیں کرسکے، جس سے یہ بھی معاشرہ کی مین اسٹریم میں آتے اور ایک بہتر زندگی جینے کی جانب گامزن ہوتے۔
پردھان منتری آواس یوجنا اور دوسرے تمام منصوبوں کے تحت خط افلاس سے نیچے کے کنبوں کو رہائش گاہیں مہیا ہوئی ہیں، لیکن بچہ مزدوروں کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے، جس سے سبھی کے لیے رہائش کا انتظام ہو پائے۔ ظاہر ہے غیرمنظم شعبہ سے تعلق رکھنے والے یہ بچہ مزدور ان مظلوموں جیسے حالات میں رہنے کے لیے مجبور ہیں، جیسے لاوارث قسم کے بچے ہوتے ہیں۔ انتہائی غریبی کی وجہ سے جس طبقہ کو پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہ ہوتا ہو، وہ بھلا بہتر زندگی جینے کا تصور کیسے کرسکتا ہے؟
بچے ملک کا مستقبل ہیں، لیکن جو بچپن مجبور اور مظلوم ہے، استحصال کا شکار ہے، وہ ملک کا داغ دار مستقبل ہی سمجھا جائے گا۔ اس داغ دار مستقبل کی خیرخبر لینے والا کوئی نہیں ہے۔ کیا محض بچہ مزدوری، بچوں کے استحصال، بچوں پر تشددیا بچوں کے اغوا کے خلاف قانون بنادینے سے بچپن محفوظ ہوجائے گا؟ حکومت کے لیے یہ نظرانداز کیا جارہا طبقہ آج تک اہم کیوں نہیں بن پایا ہے؟ ایسے تمام سوال ہیں، جن کا جواب ابھی ملنا باقی ہے۔
ہندوستانی مزدور تنظیم کے مطابق زرعی شعبہ میں سب سے زیادہ بچہ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کی بازآبادکاری کا کوئی منصوبہ گاوؤں میں نہ تو مرکزی حکومت کی طرف سے اور نہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے نافذ ہے۔ ان بال مزدوروں کو بالغ مزدورں کے مقابلہ آدھی مزدوری ملتی ہے۔ کہنے کو یہ کنبہ کی بدحالی کے سبب مجبوری میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں، لیکن غریب کنبوں میں ان کو ایک کمائی کرنے والے ممبر کے طور پر سمجھا اور دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کی جسمانی، ذہنی نشوونما کے بارے میں کوئی توجہ نہیں دیتا۔ حکومت ایسے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی بات کرتی ہے لیکن یہ اسکول جا ہی نہیں پاتے یا تب جاتے ہیں جب کام سے انہیں چھٹی ملتی ہے۔ پانچ سے 14سال کے ان بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے ضروری خوراک تک نہیں ملتی اور ضروری آرام کا بھی کوئی نظم نہیں ہوتا۔
ہندوستان میں زرعی شعبہ میں کام کرنے والے بچہ مزدوروں کی تعداد تقریباً 70فیصد ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے کھیتی میں کام کرنے والے بچہ مزدوروں کو بھی نکالنا ہوگا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اگر انہیں زرعی شعبہ سے ہٹائے گی تو ان کے اور ان کے کنبہ کے لیے خوراک، کپڑے اور دوسری ضروری چیزوں کا بندوبست کرنے کے لیے انقلابی ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے جو ابھی ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح قالین کی بنائی میں مصروف بچہ مزدوروں کو ہٹانے کے بعد ان کی زندگی گزارنے اور تعلیم کا مکمل انتظام آج تک نہیں ہوپایا۔ بھٹہ مزدوروں کا مسئلہ اپنے آپ میں ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس شعبہ میں لاکھوں کی تعداد میں بچہ مزدور کام کرتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے-جن میں لڑکے-لڑکیاں دونوں شامل ہیں-لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ کارخانوں میں کام کرنے والے بچوں کے استحصال کی الگ کہانی ہے۔ اسی طرح سب سے بدترین بچوں کا جنسی استحصال ہے۔ اس میں زیادہ تر غائب ہوئے بچے ہوتے ہیں۔
اگر حکومت کے اعدادوشمار کو ہی مانیں تو تقریباً دو کروڑ سے زیادہ بچہ مزدوروں کا ہونا، یہ بتاتا ہے کہ ملک کابچپن استحصال کا شکار، غیرمحفوظ اور ناانصافی کی چکی میں پسنے کے لیے مجبور ہے۔ ایسا نہیں کہ حکومتوں نے بچہ مزدوروں کو ترقی کی مین اسٹریم میں لانے کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ کوششیں کی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بچہ مزدوروں کو آزاد بھی کرایا جاچکا ہے، لیکن ان سبھی بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری آج تک نہیں ہوپائی ہے۔ اب بھی لاکھوں کی تعداد میں بچہ مزدور استحصال اور ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ لاکھوں بچہ مزدور سڑک کی پٹریوں اور پیڑ یا پل کے نیچے سوتے اور رہتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری سوا فیصد کی شرح سے ہوتی آئی ہے۔ کچھ ریاستوں میں تو صفر کی رفتار سے بازآبادکاری ہورہی ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا اور دوسرے تمام منصوبوں کے تحت خط افلاس سے نیچے کے کنبوں کو رہائش گاہیں مہیا ہوئی ہیں، لیکن بچہ مزدوروں کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے، جس سے سبھی کیلئے رہائش کا انتظام ہوپائے۔ ظاہر ہے غیرمنظم شعبہ سے تعلق رکھنے والے یہ بچہ مزدور ان مظلوموں جیسے حالات میں رہنے کیلئے مجبور ہیں، جیسے لاوارث قسم کے بچے ہوتے ہیں۔ انتہائی غریبی کی وجہ سے جس طبقہ کو پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہ ہوتا ہو، وہ بھلا بہتر زندگی جینے کا تصور کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری سمیت سبھی طرح کے مسائل کو ترجیحات میں رکھ کر مرکزی اور ریاستی حکومتیں حل کریں۔
(بشکریہ: جن ستّا)