نئی دہلی(بی بی سی ):افغانستان میں حال ہی میں ایک انڈین فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے قتل نے ان کے خاندان، دوستوں اور دنیا بھر میں صحافی برادری کو صدمہ پہنچایا ہے۔ ان کی موت کے متعلق مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں کہ 16 جولائی کو کن حالات میں انھیں ہلاک کیا گیا۔دانش صدیقی کی موت سے پہلے اور بعد میں کیا ہوا اس کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے کابل، قندھار اور سپن بولدک میں حکام، صحافیوں اور مقامی لوگوں سے بات کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی گزارش کی۔سپن بولدک پاکستان سے متصل افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ دانش سپن بولدک کے سفر سے قبل قندھار کے گورنر کے دفتر میں موجود تھے تاکہ افغان فوج کے ساتھ طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی کی رپورٹنگ کر سکیں۔دانش کے ساتھ ساتھ قندھار کے گورنر اور دیگر افراد کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر دفتر کے اندر ہی رہنے کو کہا گیا تھا۔ قندھار کے گورنر کے ترجمان احمد بحر احمدی نے پلٹزر انعام یافتہ دانش صدیقی کے ساتھ اس دفتر میں تین دن گزارے۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘وہ دن ایسے تھے جیسے سلمان خان کا ٹی وی شو بگ باس ہو۔ ہم نے ایک کمرے میں، ایک گھر میں وقت گزارا۔بحر احمدی کہتے ہیں: ‘دانش ایک بہادر شخص، ایک بہادر فوٹوگرافر تھا۔ اس جیسا کوئی نہیں تھا۔ان تین دنوں میں سب نے مل کر ساتھ کھانا کھایا، سب ایک ساتھ رہے۔احمدی نے کہا: ‘دانش اور میں نے افغانستان، قندھار اور ملک کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بات کی۔ ہم قریبی دوست بن گئے اور ایک ساتھ گزارا وقت مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔دانش صدیقی افغان فوج کے ایک دستے کے ساتھ تھے جب طالبان عسکریت پسندوں نے ان پر حملہ کیا۔قندھار سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر سپن بولدک کے نواح میں اس حملے میں دانش صدیقی کے ساتھ دو افغان فوجی بھی مارے گئے۔ افغان سپیشل فورسز کے کمانڈر صدیق کرزئی بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تینوں کو 16 جولائی کی صبح 8 سے 9 بجے کے درمیان گولی ماری گئی۔سپن بولدک میں رہنے والے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان تینوں لاشوں کو چوک پر لائے، اُنھیں ‘نمائش کے لیے رکھا اور ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔انھوں نے بتایا کہ جب وہ خود 12 بجے کے قریب چوک پہنچے تو دانش کی لاش مسخ ہو چکی تھی۔انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ وہاں لاشیں دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے انھیں بتایا کہ طالبان نے بکتر بند گاڑی کو دانش کے چہرے پر چڑھا دیا تھا۔
اس شخص کے مطابق طالبان کہہ رہے تھے کہ انھوں نے ایک انڈین جاسوس کو پکڑ کر قتل کر دیا ہے، اور وہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب طالبان نے دانش صدیقی کے قتل کی تردید کی ہے۔دانش خبر رساں ادارے روئٹرز کے لیے کام کرتے تھے، جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کو معلوم نہیں تھا کہ جس جگہ ‘شدید لڑائی ہو رہی ہے وہاں ایک صحافی رپورٹنگ کر رہا تھا اور یہ بھی واضح نہیں کہ صدیقی کی ہلاکت کیسے قتل ہوئی۔بحر احمدی کے مطابق ابتدائی طور پر طالبان لاشیں واپس کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھیں ایسا کرنے کے لیے ‘راضی کرنا پڑا۔ حکومت کی درخواست پر ریڈ کراس کی ایک ٹیم نے لاشوں کو سپن بولدک سے قندھار کے میرواعظ ہسپتال پہنچایا۔
ہسپتال کے ایک عہدیدار کے مطابق ‘جب ہمیں (دانش کی) لاش ملی تو اس کا چہرہ مسخ ہو چکا تھا۔ اسے پہچاننا مشکل تھا۔ اس عہدیدار کے مطابق دانش کی لاش کو اگلے دن فورینزک جانچ کے لیے کابل پہنچایا گیا۔بحر احمدی اور ایک صحافی کے مطابق جنھوں نے تین لاشیں قندھار کے\اسپتال میں دیکھی تھیں صدیق کرزئی کے چہرے کو مسخ نہیں کیا گیا تھا۔
ہمیں دانش کے لاش کی فورینزک جانچ کی رپورٹ تو نہیں مل سکی ہے، لیکن قندھار کے اس صحافی کے مطابق انھیں دانش کی گردن کے نیچے گولیوں کے کوئی نشان نظر نہیں آئے۔ طالبان نے ابھی تک دانش کی لاش کے مسخ ہونے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن اگر یہ طالبان نے کیا تھا تو اس کی وجہ واضح نہیں ہے۔افغان صحافیوں کی سیفٹی کمیٹی کے سربراہ نجیب شریفی کا کہنا ہے کہ ‘جس طرح ان (دانش) کی لاش کو مسخ کیا گیا وہ قابل مذمت ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ ایک صحافی تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ انڈین تھے۔طالبان کے لیے دانش صدیقی کی قومیت کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ وہ ٹوئٹر پر بہت سرگرم تھے اور پاسپورٹ اور میڈیا سے متعلق تمام کاغذات اپنے ساتھ ضرور رکھتے رہے ہوں گے۔دراصل اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے انھوں نے اس علاقے سے لڑائی کی صورت حال پر ٹویٹ بھی کی تھی۔
16 جولائی کو صبح سویرے بحر احمدی قندھار کے گورنر کے دفتر میں تھے۔ گورنر کے علاوہ ان کے ساتھ فوجی کمانڈر بھی تھے جو افغان فوج کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ صدیق کرزئی مسلسل دفتر کے ایک شخص کو وہاں کے حالات کے بارے میں بتا رہے تھے اور وہ شخص دفتر میں موجود افراد کو یہ اپڈیٹ فراہم کر رہا تھا۔بحر احمدی یاد کرتے ہیں: ‘اس وقت لڑائی کے حالات تھے۔ صدیق نے ہمیں مطلع کیا کہ وہ آگے بڑھ رہے ہیں، (طالبان) کو مار رہے ہیں، وہ بہت اچھا کر رہے ہیں۔ اس سے تمام لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔’لیکن پھر خبر آئی کہ صدیق کرزئی کے فون سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے اور چند منٹوں میں پتہ چلا کہ وہ مارے گئے۔ ان کی لاش طالبان کے قبضے میں ہے۔بحر احمدی نے کہا: ‘صدیق کرزئی ہمارے بہترین جنگجوؤں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے گذشتہ 20 سالوں کی لڑائی میں اپنے خاندان کے 13 افراد کو کھو دیا تھا۔ چند منٹ بعد، دانش صدیقی کی موت کی خبر بھی آئی۔اس بات کی تصدیق کرنا مشکل ہے کہ دانش صدیقی کی موت کس وجہ سے ہوئی کیونکہ ہم کسی ایسے افغان فوجی کے بارے میں نہیں جانتے جو اس مشن میں زندہ بچ گیا ہو۔
ایک خیال یہ ہے کہ ان سب پر چھپ کر بندوق یا آر پی جی سے حملہ کیا گیا جس میں تمام لوگ مارے گئے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ ان کی بکتر بند گاڑی طالبان کے حملے میں چلنے کے قابل نہیں رہی، طالبان نے انھیں گھیر لیا، وہ گاڑی سے باہر نکلے اور انھیں گولی مار دی گئی۔سپن بولدک کے ایک شہری نے بتایا کہ ان کا گھر اس جگہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں دانش صدیقی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گھر پر تھے جب فائرنگ کی آواز آئی۔قندھار کے ایک صحافی نے سپن بولدک کے لوگوں کے حوالے سے بتایا کہ تینوں افراد کے قتل کے بعد طالبان بکتر بند گاڑی کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن وہ پھر واپس آئے اور صرف دانش کی لاش پر گاڑی چڑھا دی۔
سپن بولدک میں عہدیداروں اور لوگوں کے ساتھ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ تینوں لاشوں کو دوپہر یا شام تک سپن بولدک چوک پر گھنٹوں زمین پر رکھا گیا جب تک کہ ریڈ کراس کی ٹیم لاشیں اٹھا کر قندھار کے ہسپتال لے جانے کے لیے نہ پہنچی۔
سپن بولدک کے ایک اور شخص نے بتایا کہ انھیں مقامی میڈیا سے معلوم ہوا کہ ایک انڈین صحافی کا قتل ہوا ہے اور وہ شام چار بجے کے قریب چوک پر پہنچے جہاں لاشیں رکھی تھیں۔انھوں نے بتایا کہ شہر کے چوک پر ایک مجمع اکٹھا تھا۔افغانستان کا چھوٹا سا قصبہ سپن بولدک اس وقت طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان نے اس علاقے میں نئے ٹیکس لگائے ہیں اور سرحد پار کرنے والے سامان پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔17 جولائی کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں روئٹرز نے کہا کہ دانش صدیقی نے انھیں بتایا تھا کہ ‘جمعہ کو لڑائی کی رپورٹنگ کے دوران ان کے بازو پر چھرے لگے تھے۔ ان کا علاج کیا گیا اور بعد میں طالبان شدت پسند سپن بولدک میں پیچھے ہٹ گئے۔رپورٹ میں ایک کمانڈر کے حوالے سے بتایا گیا کہ جب طالبان نے دوبارہ حملہ کیا تو صدیقی دکانداروں سے بات کر رہے تھے۔ مقامی افغان صحافیوں نے سوالات اٹھائے ہیں کہ دانش صدیقی کو زخمی حالت میں اس علاقے میں کیوں چھوڑ دیا گیا۔
افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی کے سربراہ نجیب شریفی نے کہا: (جب روئٹرز کو ان کی چوٹ کا علم ہوا تو) روئٹرز کو انھیں وہاں سے ہٹا لینا چاہیے تھا۔بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں روئٹرز نے کہا: ‘ہمارے ساتھی دانش صدیقی کی موت پر ہمیں شدید رنج ہے۔ ہم حقائق کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آخر دانش کی موت کیسے ہوئی۔نجیب شریفی کا کہنا ہے کہ ‘ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آيا دانش کو قیدی بنا کر ان کا قتل کیا گیا یا وہ فائرنگ کے دوران مارے گئے۔