بی جے پی نہیں چاہتے تھے کہ پیگاسس الزامات پر کوئی بحث ہو:تھرور

0
The Print

ی دہلی، (پی ٹی آئی) : انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) پر پارلیمانی کمیٹی کے صدر ششی تھرور نے اتوار کو کہا کہ ارکان نے 28 جولائی کو کمیٹی کی میٹنگ میں’رکاوٹ‘ڈالی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پیگاسس الزامات پر کوئی بحث ہو اور جن افسران کو گواہی دینی تھی، لگتا ہے انہیں’پیش نہیں ہونے کی ہدایت دی گئی۔‘انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ وقت میں کمیٹی جاسوسی معاملے پر سماعت کرے گی۔
کمیٹی کی میٹنگ میں شامل نہیں ہونے والے وزارت کے عہدیداروں پر کارروائی کرنے کے لیے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو خط لکھنے والے تھرور نے یہ بھی کہا کہ میٹنگ سے دور رہنے کے لیے ’آخری وقت میں بہانے‘بنانے والے 3 عہدیداروں کی حرکت گواہوں کو بلانے کے لیے ایسی کمیٹی کے خصوصی استحقاق پر ایک ’سنگین حملہ‘ہے۔ کانگریس لیڈر تھرور نے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نریندر مودی کے اس تبصرہ کے لیے ان کی تنقید کی کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی توہین کی ہے۔ تھرور نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے موضوعات پر کسی بھی طرح، کسی بھی شکل میں جواب دہ ہونے سے سرکار کے انکار نے’جمہوریت اورعام ہندوستانیوں کا مزاق اڑایا ہے،جس کی سرکار نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔‘سابق مرکزی وزیر اور ترووننت پورم سے رکن پارلیمنٹ نے زور دے کر کہا کہ بحث اور جوابدہی سے بچنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آگے انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی پیگاسس جاسوسی معاملے پر غور کر سکے گی، تھرور نے کہا کہ اب 2 سال سے آئی ٹی کمیٹی ’شہریوں کے ڈیٹا کی رازداری اور سکیورٹی‘اور’سائبر سکیورٹی‘کے موضوعات پر غور کر رہی ہے جو کہ پارلیمانی کمیٹی کے سابق صدر انوراگ ٹھاکر کے ایجنڈے میں بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ پیگاسس معاملہ واضح طور پر آئی ٹی کمیٹی کے دائرے میں آتا ہے اور اس لیے یہ امید کی جاتی ہے کہ جب یہ معاملے اٹھیں گے تو اس کے ارکان اس کے بارے میں پوچھیں گے۔ تھرور نے کہا کہ ’یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اپنے طے شدہ ایجنڈے پر کمیٹی کی میٹنگ کو ارکان کے ذریعہ روکا گیا جو نہیں چاہتے تھے کہ پیگاسس پر غور کیا جائے۔ کمیٹی کو کورم سے محروم کرنے کے لیے 10 ارکان کا حصہ لینا اور رجسٹر پر دستخط کرنے سے انکار کرنا غیر معمولی تھا۔‘ کمیٹی کو 28 جولائی کو ایک میٹنگ کرنی تھی جس میں پیگاسس جاسوسی کے الزامات سمیت کئی معاملوں پر غور ہونے کی امید تھی۔ اس نے ’شہری ڈیٹا سکیورٹی اور رازداری‘کے موضوع پر الیکٹرونکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی وزارت (ایم ای آئی ٹی وائی)، وزارت داخلہ اور وزارت مواصلات (ٹیلی مواصلات محکمہ) کے عہدیداروں کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ حالانکہ میٹنگ نہیں ہو سکی کیونکہ کمیٹی کے پارلیمانی ارکان نے میٹنگ روم میں موجودگی کے باوجود حاضری رجسٹر پر دستخط نہیں کیے جس سے کورم (ممبران کی تعداد) پورا نہیں ہوا۔
سیکریٹریٹ کی کمیٹی برانچ کو 28 جولائی کی دوپہر تینوں وزارتوں/محکموں سے ای میل کے ذریعہ پیغام ملا کہ ان کے نمائندے پارلیمنٹ سے متعلق کام کے سبب کمیٹی کے سامنے حاضر نہیں ہو پائیں گے۔ تھرور نے کہا کہ اس دن گواہی دینے والے 3 عہدیداروں کو آخری وقت میں بہانے بنا کر حاضر نہیں ہونے کی ہدایت دی گئی تھی جو گواہوں کو بلانے کے پارلیمانی کمیٹیوں کے خصوصی استحقاق پر ایک سنگین حملہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پارلیمنٹ کے تئیں جوابدہی جمہوریت کی بنیاد ہے، تھرور نے الزام لگایا کہ موجودہ سرکار کے’بے لگام نظام میں اسے درکنار کیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اس مایوس کن نظریہ کے باوجود مجھے امید ہے کہ ہم آگے چل کر اس سوال کو ا ٹھانے کے اہل ہوں گے۔‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پیگاسس معاملے کو اٹھانے کے لیے ایک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) زیادہ مناسب ہوگی، تھرور نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ایک جے پی سی کیا کر سکتی ہے، جو آئی ٹی کمیٹی نہیں کر سکتی ہے۔ پھر بھی میں نے شروع سے ہی زور دیا کہ ہمیں درحقیقت کیا چاہیے … پیگاسس معاملے کی غیر جانبدارانہ، شفاف اور سنجیدہ جانچ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک موجودہ یا حال میں سبکدوش جج کی صدارت میں جانچ۔‘ تھرور نے کہا کہ عدلیہ کے پاس اختیارات ہیں جو ارکان پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے مقابلے پیگاسس سے وابستہ سوالوں کے سبھی پہلوئوں کا پتہ لگانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS