بھرت جھنجھن والا
ہمارے آئین میں فلاحی ریاست کا تصور کیا گیا ہے یعنی حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح ہے۔ یقینا اسے حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی تقرری کرنی ہوگی۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے، جب سرکاری ملازم عوام کی خدمت کم کرتے ہیں اور اس پر بوجھ زیادہ بننے لگتے ہیں۔ وہ عوام کی آمدنی کا بڑا حصہ اپنی تنخواہ کی شکل میں حاصل کرنے لگتے ہیں۔ تب حکومت کا مقصد عوامی فلاح نہیں بلکہ کارکنان کی فلاح ہوجاتا ہے۔
عالمی بینک کی ’گورنمنٹ ایمپلائمنٹ اینڈ پے‘ ریسرچ کے مطابق ویتنام میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ ملک کی فی شخص آمدنی کا 0.9گنا ہے۔ یعنی اگر ملک کے شہریوں کی آمدنی 100روپے ہے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہ 90روپے۔۔ چین میں یہ تناسب 1.1ہے۔ یعنی وہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہ 110روپے ہے۔ ان کے مقابلہ میں ہندوستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ 7گنا یعنی 700روپے ہے۔ ہندوستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ عالمی اصول کے مطابق بہت ہی زیادہ ہے۔ توجہ دینی چاہیے کہ ویتنام اور چین معاشی شرح نمو میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ برابر ہونے سے ان ممالک کی معاشی ترقی پر مناسب اثر ہی پڑا ہے۔
عالمی بینک کی ہی دوسری ریسرچ کے مطابق 2009میں پوری دنیا میں حکومتوں کی اوسط کھپت ملک کی آمدنی کا18.0فیصد تھی جو 2014میں کم ہوکر 17.2 فیصد ہوگئی۔ 2019میں یہ مزید کم ہوکر 17.1فیصد تک جاپہنچی۔ اس کے مقابلہ میں دیکھیں تو 2014میں حکومت ہند کی کھپت ملک کی آمدنی کا 10.4فیصد تھی جو 2020میں بڑھ کر 12.6فیصد ہوگئی۔ واضح ہے کہ جہاں دنیا میں سرکاری کھپت میں کمی آرہی ہے، وہیں ہندوستان میں یہ بڑھ رہی ہے۔ اس کا اہم سبب ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا 7گنا ہونا۔ حیرت نہیں کہ ہندوستان کی معاشی شرح نمو میں 2014سے مسلسل کمی آرہی ہے۔ ریاستوں کی حالت اور بھی مشکل ہے۔ کیرالہ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں ہی ریاست کی 70فیصد آمدنی کھپ جاتی ہے اور تمل ناڈو میں 71فیصد۔ تمل ناڈو میں اسکول کے ہیڈماسٹر کی تنخواہ 1,03,000روپے فی ماہ ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکول کے ہیڈماسٹر کی تنخواہ، میرے اندازہ کے مطابق 15,000
ملک بحران میں ہے۔ چین گزشتہ 30برس میں اپنے سرکاری ملازمین کو فی شخص اوسط آمدنی کے برابر تنخواہ دے کر ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ ویتنام بھی آگے نکلتا جارہا ہے۔ ہم اپنے سرکاری ملازمین کو زیادہ تنخواہ دے کر پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ حکومت سخت قدم اٹھاتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں زبردست کٹوتی کرے اور اس رقم کو عام آدمی کے بینک کھاتوں میں ڈال دے۔اس سے بازار میں فوری ڈیمانڈ پیدا ہوجائے گی اور معیشت چل پڑے گی۔
روپے فی ماہ ہی ہوگی۔
گزشتہ 3پے کمیشنز نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا۔ سوچ یہ تھی کہ سرکاری ملازم کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر کے مساوی ہونی چاہیے۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں خاص شخص کو اس کی کام کی کارکردگی کے مطابق زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ سرکاری سیکٹر میں ایسی ذاتی تشخیص (personal assessment) اور تنخواہ متعین نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے خاص ملازمین کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے جو تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، وہ پورے سرکاری ملازمین پر نافذ ہوجاتا ہے۔ جیسے اوپر بتایا گیا کہ سبھی ہیڈماسٹر کو 1,03,000 روپے فی ماہ کی تنخواہ دی جاری ہے۔ عالمی بینک کی ریسرچ ’کیا سرکاری شعبہ(ساروجنک شیتر) کی تنخواہیں زیادہ ہیں‘ میں بتایا گیا ہے کہ غیرہنرمند اور نچلے عہدہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر سے بہت زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ باصلاحیت ملازمین کے زیرسایہ بڑی تعداد میں نااہل سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت کا ریونیو سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حکومت سرمایہ کاری نہیں کرپاتی اور ہماری اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
طریقہ یہی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں زبردست کٹوتی کی جائے۔ کم سے کم 50فیصد کٹوتی ہونی چاہیے۔ اس سے بازار میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ معاشیات میں ایک خیال ’کھپت کے رجحان‘ کا ہے۔ کسی شخص کو اگر 100روپے کی اضافی آمدنی ہوتی ہے تو اس میں سے وہ کتنی رقم کی کھپت کرتا ہے، اسے ’کھپت کا رجحان‘ کہتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اگر 100روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو ان کے ذریعہ میرے اندازے کے مطابق 20روپے کی اضافی کھپت کی جائے گی کیوں کہ ان کے گھر میں اے سی، فریج وغیرہ پہلے سے ہی موجود ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی جھگی میں رہنے والے کی آمدنی میں 100روپے کا اضافہ ہوجائے تو وہ 80روپے کی اضافی کھپت کرے گا۔ اس لیے اگر 100روپے کی تنخواہ سرکاری ملازم سے کاٹی جائے تو کھپت میں 20روپے کی کمی آئے گی اور وہی 100روپے جھگی میں رہنے والے کو دے دیے جائیں تو اس کی کھپت میں 80روپے کا اضافہ ہوگا۔ اس دوبارہ تقسیم(redistribution) سے 60روپے کی اضافی ڈیمانڈ بازار میں پیدا ہوجائے گی۔ حکومت کی جیب سے ایک روپے کا بھی اضافی خرچ نہیں ہوگا۔ کئی ممالک نے کووڈ کے بحران کے وقت اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی ہے۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم (international labor organization) کے مطابق پراگوے میں 20فیصد کی کٹوتی کی گئی ہے۔
پانچویں پے کمیشن نے سفارش کی تھی کہ سرکاری ملازمین کی مجوزہ تنخواہوں میں اضافہ کو ایک انکلوڈیڈ پیکیج (included package) کے طور پر نافذ کیا جائے۔ ساتھ ساتھ کہا گیا ہے کہ کلاس ’اے‘ افسران کا ہر 5برس پر باہری تجزیہ کرنا چاہیے۔ حکومت نے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جب کہ جائزے کو ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا۔ حکومت کے کام کرنے کی صلاحیت کو نہیں بہتر کیا جاسکتا ہے تو تنخواہ میں کٹوتی تو کی ہی جاسکتی ہے۔
ملک بحران میں ہے۔ چین گزشتہ 30برس میں اپنے سرکاری ملازمین کو فی شخص اوسط آمدنی کے برابر تنخواہ دے کر ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ ویتنام بھی آگے نکلتا جارہا ہے۔ ہم اپنے سرکاری ملازمین کو زیادہ تنخواہ دے کر پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ حکومت سخت قدم اٹھاتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں زبردست کٹوتی کرے اور اس رقم کو عام آدمی کے بینک کھاتوں میں ڈال دے۔اس سے بازار میں فوری ڈیمانڈ پیدا ہوجائے گی اور معیشت چل پڑے گی۔
(بشکریہ: نو بھارت ٹائمس)