اقوام متحدہ،واشنگٹن (یو این آئی) : طالبان اور افغان فوج کے درمیان افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر غورو خوض کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کا ہنگامی اجلاس6 اگست کو طلب کر لیا گیا ہے ۔ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ اجلاس بڑے شہروں میں طالبان کے حملوں اور وزیر دفاع بسمہ اللہ محمدی کی رہائش گاہ پر حملے کے حوالے سے افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کیہندوستانیہم منصف ایس جے شنکر سے گفتگو کے بعد بلایا گیا ہے ۔افغان وزیر خارجہ نیہندوستانی ہم منصب سے گفتگو کے دوران مبینہ طور پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ہندوستان، جو فی الحال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے ، اگست کیلئے طاقتور ادارے کی صدارت کر رہا ہے ۔اجلاس کے دوران افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کی سربراہ ڈیبرہ لیونس سلامتی کونسل کے اراکین کو صورتحال سے آگاہ کریں گے ۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان پرتشدد جھڑپ کے واقعات کے سبب امریکہ نے پاکستان سے افغان مہاجرین کیلئے سرحدیں کھولنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ جب کہ پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ کا سرحدیں کھولنے کا مطالبہ دونوں ملک کے مابین پہلے سے جاری کشیدگی میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے افغان شہریوں کے لیے نئی امریکی مہاجرین پالیسی کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ضروری ہوگا کہ پاکستان اپنی سرحدیں (افغان مہاجرین) کے لیے کھلی رکھے ’۔عہدیدار نے مزید کہا کہ ظاہر ہے کہ اگر لوگ شمال کی طرف یا ایران کے راستے ترکی جاتے ہیں تو (انہیں) ملک میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت یا یو این ایچ سی آر میں رجسٹر ہونے کا موقع ملتا ہے ۔پیر کے روز اعلان کیا گیا تھا کہ نیا پروگرام ان افغان ملازمین پر لاگو ہوتا ہے جنہوں نے امریکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں یا میڈیا یا غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لیے کام کیا۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے علاوہ ترکی سے بھی کہا ہے کہ وہ افغانوں کو امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے سے قبل 14 ماہ تک ملک میں رہنے کی اجازت دے ۔واضح رہے کہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے رواں ہفتے واشنگٹن میں ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ بے گھر افغانیوں کو پاکستان میں داخل کرنے کے بجائے انہیں اپنے ملک کے اندر رکھنے کے انتظامات کیے جائیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ‘انہیں در بدر کیوں کیا جائے ؟ ان کے لیے ان کے ملک کے اندر انتظام کریں، پاکستان میں مزید مہاجرین لینے کی صلاحیت نہیں ہے ’۔دریں اثنا ترک حکومت نے بھی افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے تیسرے ممالک کو استعمال کرنے کے امریکی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے خطے میں ‘مہاجرین کا ایک بڑا بحران’ پیدا ہوگا۔ترکی کی وزارت خارجہ نے انقرہ میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنے ملک سے مشورہ کیے بغیر امریکہ کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کو قبول نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ ان لوگوں کو اپنے ملک لے جانا چاہتا ہے تو ان کو براہ راست طیاروں کے ذریعے اپنے ملک منتقل کرنا ممکن ہے ۔ایران اور پاکستان دو ممالک ہیں جو اس آبادکاری کے منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔امریکہ کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اس لیے امریکی پالیسی ساز پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اس پروگرام کو نافذ کرنے میں مدد کرے ۔تاہم پاکستان ایسا کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے ، 1979 کے بعد سے پاکستان لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کر چکا ہے اور 30 لاکھ سے زائد مستقل طور پر ملک میں آباد ہیں۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ زیادہ مہاجرین رکھ سکیں۔
افغان بحران پر غور کیلئے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS