پنجاب:(بی بی سی ) رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں ایک مندر پر حملے اور اس میں توڑ پھوڑ کے بعد پولیس نے تین مقدمات درج کیے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ علاقے میں موجود بیشتر ہندو خاندانوں نے اپنے گھر بار چھوڑنا شروع کر دیے ہیں۔ کل رات ڈی پی او رحیم یار خان نے مذہبی علما کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ چند مٹھی بھر لوگوں نے امن تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو اُکسانے والے، ان کو وہاں پر لانے اور بلوانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی اتحقیقات ہو رہی ہیں اور تین مقدمات درج ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ممبر قومی اسمبلی اور پارلیمنٹری سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال ملحی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا ہے کہ بھونگ میں موجود بیشتر ہندو گھرانے ہنومن جی کے مندر میں حملے کے بعد خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔لال ملحی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پیچھے رہ جانے والی املاک کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔دوسری جانب ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بھونگ کے ایک رہائشی نے بی بی سی بتایا کہ جب بدھ کے روز احتجاج شروع ہوا تو ہندو برادری کے لوگ خوف سے اپنے گھروں میں بند ہو گئے تھے۔یاد رہے کہ گذشتہ روز رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں ایک مندر پر مشتعل افراد کے حملے اور شدید توڑ پھوڑ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو طلب کیا تھا۔
پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے مندر پر ہونے والے حملے پر از خود نوٹس لے لیا ہے۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے ہیں۔
یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا ہے وہاں ہندو برادری کے 80 مکانات اس مندر کے گرد ہی موجود ہیں۔ علاقے میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ یہاں اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔
بھونگ کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی آبادی میں زیادہ تر گھر خالی ہو گئے تھے اور لوگ خوف کی وجہ سے اپنے گھروں کو تالے لگا کر علاقے سے نکل گئے تھے۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس سے قبل وزیراعلی پنجاب نے رحیم یار خان کےعلاقے بھونگ میں مندر میں توڑ پھوڑ کےواقعہ پر کمشنر اور آر پی او بہالپور سے رپورٹ طلب کی۔
وزیراعلیٰ کی ہدایت پر مندر کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے اور رینجرز کی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
بدھ کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں موجود مولانا عبدالکبیر آزاد نے کہا کہ ہم نے درخواست کی ہے کہ اپنے خاندانوں کو اپنے گھروں میں رکھیں۔ ’ہماری پولیس انتظامیہ افواج اور رینجرز کے دستے ان کی حفاظت کریں گے۔انھوں نے وہاں موجود مذہبی رہنماؤں سے کہا کہ وہ اپنی تقاریر میں دہشت پھیلانے والوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بات کی جائے اور اگر ایسے لوگ ہماری صفوں میں موجود ہیں تو ان کو پکڑانے کے لیے کردار دا کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا جو بھی شخص ایسے کاموں میں ملوث ہو گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔انھوں نے اقلیتی برادریوں پر ماضی میں ہونے والے چند واقعات کو حوالہ دیا اور کہا کہ ’یہاں یوحنا آباد میں مسئلہ ہوا، جوزف کالونی میں مسئلہ ہوا اور گوجرہ میں مسئلہ ہوا۔ یہ جتنے بھی واقعات ہوئے ہم سب سے پہلے وہاں پہنچے اور وہاں جا کر امن کی شمع کو روشن کیا ہے۔‘
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کو علاقے میں 23 جولائی کو پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑا جس میں ایک آٹھ سالہ بچے پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ 24 تاریخ کو ہم نے ایک آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔انھوں نے بتایا کہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آکر پیشاب کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور بچے کو گرفتار کیا گیا۔اے ایس آئی کے مطابق چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر28 تاریخ کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ڈاکٹر رمیشں نے بتایا کہ رحیم یار خان کے ڈی پی او نے اس بچے کو اٹھایا اور وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی اور پھر اسے چھوڑ دیا۔
’شام کو چار بجے سی پیک کا روڈ 25 کے قریب لوگوں نے بلاک کیا۔ میں نے ایڈیشنل آئی جی کو بتایا۔ ساڑھے چھ بجے انھوں کے مندر پر حملہ کیا تھا۔ گھروں میں جانے کی کوشش کی۔ پھررینجرز کو بلایا گیا۔ اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘
رحیم یار خان مندر حملہ: ہندو خاندانوں کا علاقہ سے منتقلی شروع
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS