مولانا ندیم احمد انصاری
سیرتِ رسولؐ کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے بہ حیثیت پیغمبر اپنے پیروکاروں کو جو نصیحتیں فرمائیں ان سب پر اولاً خود عمل کر کے دکھایا ہے۔ لیکن بہ حیثیت ملت ہمارا سب سے تکلیف دہ پہلویہ ہے کہ ہم اس پر فخر تو کرتے ہیں مگر خود اس کی ادنیٰ مثال پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمدؐ لوگوں کے بہت سارے کام کردیا کرتے تھے، بازاروں سے ان کا سودا لا دیتے، غریبوں کی امداد کرتے،ضرورت مندوں کو قرض دیتے یا اپنی سفارش پر کسی سے دلوا دیتے، بسا اوقات ان کے قرض خود ادا کردیتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے، بیواؤں کی کفالت کرتے، غلاموں کی آزادی کی تدبیریں کرتے اور کمزور طبقوں کو اونچا اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔مختصر یہ کہ آپؐ ہر وہ کام کرتے تھے جس کی صالح معاشرے کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہماری زندگیاں ان بلند و بالا اخلاق سے یک سر خالی ہیں۔رحمۃ للعالمینؐ نے اپنے امتیوں کو جن اعلیٰ تعلیمات سے نوازا من جملہ ان کے ایثار و ہمدردی بھی ہے، آپؐ نے اس کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ اپنی ذاتِ مبارک میں اس کا بہترین نمونہ بھی پیش کیا۔
غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے، کیا ایسے میں ہماری یہ ذمّے داری نہیں بنتی کہ ہم اپنے بھائیوں کے کام آئیں۔ گھر کے پْرانے برتن اور اْترن نکال کر دے دینا زیاہ مشکل نہیں، اسی بہانے گھر کی صفائی بھی ہو جایا کرتی ہے، لیکن کیا صرف اتنا ہی کرلینے سے کسی ایک گھرانے کی زندگی بدل سکتی ہے؟جس خدا نے ہمیں اتنا سب دیا ہے کیا ہم اس کے بندوں کے لیے کچھ ایثار نہیں کر سکتے؟۔آج لوگ معاشرے میں ناک اونچی کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، کیا خدا کے قرب کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا؟۔ایک المیہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نیک و بہتر انسان اسے سمجھتے ہیںجو زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرتا ہو، بلاشہ یہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن صرف یہی تو دین نہیں ہے۔اسلام تو ہمیں اس شاہ راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے جس پر بہ نفسِ نفیس محسنِ انسانیتؐ گامزن تھے، دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح انداز میں نیکی کی تعریف بیان فرمائی’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی نازل کردہ) کتاب پر اور نبیوںپر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں(اپنا) مال قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں(یعنی ضرورت مندوں) اور غلاموں کی آزادی میں خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں، سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں‘‘(البقرہ177-)۔اس ارشادِ ربانی نے اصل نیکی کے مفہوم کو پورے طور پر اضح کر دیا، جس میں حتی المقدور بلا تفریق ہر ایک ضرورت مند کی حاجت براری کرنا بھی داخل ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں محض عبادات کو نیکی تصور کرنے کی بھی تردید کر دی گئی اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھ لینے کی بھی۔ممکن ہے یہ اشکال ہو کہ یہاں مسلمانوں کا ذکر ہے تو واضح رہے کہ اسلام انسانیت کے ناطے تمام بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے بجز چند معاملات کے۔ زکوٰۃ کی ادا ئیگی کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ جسے زکوٰۃ دی جائے وہ مسلمان ہو لیکن عام صدقات کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی۔
اسلام کا یہ عام فلسفہ ہے کہ عام صدقات مسلم و غیر مسلم سب کو دئے جا سکتے ہیں۔ حضورؐ نے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا۔آں حضرت ؐ نے بعض صحابہؓ کو اْن کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی۔ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے اپنے دو یہودی رشتے داروں کو تیس ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا۔ابن جریح محدث کہتے ہیں کہ قرآن نے سورہ دہر میں ’اسیر‘ کے کھلانے کو ثواب بتایا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے قبضے میں مشرک ہی قید ہوکر آتے تھے۔
’ حضورؐ نے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا۔آں حضرت ؐ نے بعض صحابہؓ کو اْن کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی۔ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے اپنے دو یہودی رشتے داروں کو تیس ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا۔ابن جریح محدث کہتے ہیں کہ قرآن نے سورہ دہر میں ’اسیر‘ کے کھلانے کو ثواب بتایا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے قبضے میں مشرک ہی قید ہوکر آتے تھے۔ ‘
روایتوں میں ہے کہ جب صحابہ کرامؓ مذہبی اختلاف کی بنا پر غریب مشرکوں کی مدد سے کنارہ کرنے لگے تو یہ آیت اْتری کہ’’ ان کو راہ پر لے آنا تمہارے اختیار کی بات نہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے راہ پر لے آتا ہے اور جو بھلائی(مال) تم خرچ کرو وہ تمہارے لیے ہی ہے‘‘(البقرہ272-)۔ تم کو تمھاری نیکی کا ثواب بہ ہر حال ملے گا۔ مصیبت و آفت کے وقت بلا تفریقِ مذہب ہر انسان کی مدد کرنا اور ہمدردری و تعاون کا معاملہ کرنا مسلمانوں کا امتیازی وصف ہے جس کی متعدد مثالیں رحمۃ للعالمینؐ کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہیں یہاں ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط کا شکار ہوئے تو حضرت نبی کریمؐ نے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو درہم روانہ کیے تاکہ وہ مکہ مکرمہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیں (سیرۃ النبی)۔جو لوگ سیرتِ نبویؐ کی ادنیٰ معلومات بھی رکھتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ اہلِ مکہ نے آپؐ پر کس قدر ظلم ڈھائے تھے لیکن یہ رحمۃ للعالمینؐ کی رحمت تھی کہ مصیبت کے وقت میں خود آگے بڑھ کر ان کی امداد کی۔ ہمدردی و رواداری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اہلِ اسلام پر مظالم کے مختلف النوع پہاڑ توڑنے والوں کی یوں مدد کی جائے، اس لیے ہمیں بھی رحمۃ للعالمینؐ کے اس مبارک عمل کی اتباع کرنی چاہیے ۔
q qq