عہد حاضر میں مذہب کی ضرورت

0

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

اکیسویں صدی کا ربع اول ختم ہونے میں تقریباً ابھی چار برس کا عرصہ باقی ہے۔ جدید ایجادات اور انکشافات واختراعات نے مادی طور پر بہت ترقی کی ہے۔ حتیٰ کہ انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ یقینا اس طرح کی تمام چیزیں نوع انسانیت کو جدید مسائل اور نئی تحقیقات سے آ شنا کرتی ہیں۔ معاشرے کے افراد ترقی کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ آ ج جس قدر تحدیات کا سامنا ہے، اس سے قبل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ اکیسویں صدی میں مذہب ودین کی ضرورت نہیں ہے۔ برعکس اس کے یہ بھی نظریہ ہے کہ خواہ نوع انسانیت کتنی بھی ترقی کرلے لیکن اس کا رشتہ مذہب ودین سے الگ نہیں ہوسکتا ہے۔ مذہب کی رہنمائی کے بغیر کسی بھی شعبہ حیات میں، انسان ترقی اور کامیابی کے مسلمہ اصولوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں ترقیاتی منصوبوں اور اکتسابات میں اضافہ ہورہا ہے ، وہیں عوام کی دلچسپی مذہب سے بڑھ رہی ہے۔اگر ماہرین ومحققین اور تجزیہ نگاروں کی مانیں تو ان کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں نہ صرف مذہب کی ضرورت ہوگی بلکہ مذہب کا احیا اور فروغ بھی ہوگا۔ درج بالا حقائق کا انکشاف ’’دی سولائزیشن آف دی ڈائیلاگ‘‘ کے کمیونسٹ مصنف ’’ہینز کلوپنبرگ‘‘کو تسلیم کرنا پڑا کہ ’’مذہب معاشروں کے لیے ایک اہم محرک ہے۔ پولینڈ کا کوئی بھی تذکرہ وہاں پر کیتھولک ثقافت کے اثرات کے ذکر بغیر کے تشنہ ہوگا۔ روس میں بھی روسی تشخص کی تشکیل میں پتن حکومت کے اہم اتحادی کے طور پر اب چرچ کی اہمیت تسلیم کی جانے لگی ہے۔ چین جو ہرچند سرکاری طور پر اب بھی ملحد ہے تاہم کبھی عملی طور پر پوری طرح لامذہب نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین میں مقامی مذہبی روایات اور بدھ مت کبھی معطل نہیں ہوئے۔ اب وہاں عیسائیت کی زبردست اشاعت و تبلیغ سے ماہرین مانتے ہیں کہ اگلے دنوں میں چین سب سے بڑا عیسائی ملک بن جائے گا۔ لاطینی امریکہ میں عیسائیت کے مختلف فرقے اپنی اشاعت کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکہ اور یوروپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ امریکہ میں اگرچہ مذہب سے لاتعلقی کا اظہار عام ہے لیکن دوسری طرف اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ 1950کی دہائی کے مقابلے آج وہاں پر زیادہ لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ عبادت گاہوں میں کثیر تعداد میں حاضری ہوتی ہے۔مشرق وسطیٰ اور عالم عرب میں بھی اسلام ایک متحرک قوت کے طور پر ابھرا ہے اور ایک عام مفروضے کے برعکس اس مذہبی احیا کا بڑا حصہ تشدد پسند نہیں بلکہ امن پسند ہے تاہم آمرانہ قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ جنوبی ایشیا میں مذہبیت کا اس سے زیادہ اظہار تاریخ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔‘‘

اب جو دور ہے اس کا تقاضا اور ضرورتیں بدلی ہیں۔ اس لیے مذہبی رہنماؤں کو جدید چیزوں اور رویوں سے صرف واقفیت ہی حاصل کرنی نہیں ہوگی بلکہ باقاعدہ مہارت بھی پیدا کرنی ہوگی تاکہ ان چیزوں، ضرورتوں اور تقاضوں کا صحیح اور درست طور پر جواب دیا جا سکے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکر عصر حاضر کے مسائل اور افکار و نظریات کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آ ئیڈیاز کے ساتھ سامنے آ ئیں۔

امریکی میگزین ’’دی ویک‘‘ کا کالم نگار پاسکل امانوئل کہتا ہے کہ اکیسویں صدی مذہبی احیا کی صدی ہوگی۔ مابعد نشاۃ ثانیہ کے سیکولرنظریہ حیات نے مذہب کو انسان کا نجی شوق اور اجتماعی زندگی کے لیے افیون قرار دیا تھا۔ اس نظریے میں انسان کی روحانی و قلبی واردات کی کوئی جگہ نہیں تھی۔نظریہ ارتقا نے انسان کو محض جینز کا اجتماع قرار دیا جو اپنی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔ معاشی نظریے نے ہر سعی و جہد کا محور جلب منفعت کو قرار دیا جبکہ نفسیات کے ماہرین نے جنس کو ساری انسانی تگ و دو کا مرکز قرار دیا۔ ان نظریات نے تمام تر انسانی سرگرمی کو مادیت میں محدود کردیا۔ لیکن انسان محض گوشت پوست اور مادے سے نہیں بنا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پہلے روح ہے۔ فطری طور پر مابعدالطبیعیاتی مظاہر کی طرف کھنچتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں مذہب انسان کے نظریہ حیات کا صورت گر رہا ہے اور مستقبل میں بھی، خصوصی طور پر اکیسویں صدی میں بھی مذہب کی یہ حیثیت قائم رہے گی۔
اسی طرح سید سعادت اللہ حسینی نے سابق برطانوی وزیراعظم کے حوالہ سے کہا ہے: ’’اکیسویں صدی کی دنیا میں مذہب اور مذہبی عقیدہ کی وہی مرکزی حیثیت ہوگی جو بیسویں صدی میں سیاسی نظریات کی تھی اور یہ کہ آ ج کی دنیا کو جن قدروں کی ضرورت ہے وہ مذاہب ہی فراہم کرسکتے ہیں۔‘‘اس نظریہ سے متعلق ذیل میں ایک اور حوالہ پیش ہے۔ چنانچہ سید سعادت اللہ حسینی نے عالمی شہرت یافتہ مصنف اور بین الاقوامی امور کے ماہر اسکاٹ ایم تھامس کی متداول کتاب ’’Global Resurgence Of The Religion‘‘کے حوالے سے نقل کیا ہے: ’’مذہب اور مذہبی عقیدہ اکیسویں صدی کے عالمی نظام کی روح ثابت ہوگی، یعنی وہ نظریات جنہوں نے صنعتی انقلاب کے بعد کے جدید دور پر حکومت کی تھی اکیسویں صدی میں غیر متعلق ہوجائیں گے۔‘‘ مذکورہ شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق واعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ مذہب و دین کی ضرورت اب بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز مذہب کے متبعین اور اس سے وابستگی پیدا کرنے والوں کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ اس چشم کشا حقیقت کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ ’’ایک طرف مذہب کی یہ بڑھتی ہوئی اہمیت ہے اور دوسری طرف مختلف عالمی مذاہب کا تیز رفتار زوال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف عالمی مذاہب نے گزشتہ صدیوں میں جدیدیت اور جدید مغربی تہذیب کے آگے سپر انداز ہوکر اپنی روح کھودی ہے۔گویا اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں مذہب ودین کی ضرورت واہمیت سے نوع انسانی دستبردار نہیں ہوسکتی ہے۔ جس طرح ترقی کی منازل طے کی جارہی ہیں، وہیں افراد انسانی مذہب کے متحمل مزید ہورہے ہیں۔ مذہب کو اپنی زندگی کا نصب العین اور ضرورت محسوس کررہے ہیں۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی، شعور و آگہی کو اعتدال، متوازن اور سنجیدہ رکھنے کے لیے مذہب اور مذہبی تعلیمات کا بنیادی کردار ہے۔ مذہب نوع انسانی کو جذباتیت اور بے راہ روی کی طرف نہیں لے جاتا ہے بلکہ اس کے اندر غور وفکر اور تعقل پسندی پیدا کرتا ہے۔ فہم وفراست سے نوازتا ہے۔ آ ج لوگ کسی بھی مذہب کے افراد کی ذاتی خامیوں کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جبکہ یہ نظریہ یا فکر غلط ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اپنے متبعین ومعتقدین کو غیراخلاقی اعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی طرح کے غیر سنجیدہ فعل وعمل، بد عنوانی اور تخریب کاری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ صرف اس کا اپنا ذاتی فعل وحرکت ہے۔ اس کا مذہب یا دین ودھرم ذمہ دار نہیں ہے۔ دریں اثناء اس کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے اس کی تربیت سازی، کردار سازی میں کمی ہے ، لہٰذا ذاتی طور پر اس طرح کی چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
اب جو دور ہے اس کا تقاضا اور ضرورتیں بدلی ہیں۔ اس لیے مذہبی رہنماؤں کو جدید چیزوں اور رویوں سے صرف واقفیت ہی حاصل کرنی نہیں ہوگی بلکہ باقاعدہ مہارت بھی پیدا کرنی ہوگی تاکہ ان چیزوں، ضرورتوں اور تقاضوں کا صحیح اور درست طور پر جواب دیا جا سکے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکر عصر حاضر کے مسائل اور افکار و نظریات کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آ ئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS