بہترخدمات دینے کا چیلنج

0

جینتی لال بھنڈاری

ہندوستان دنیا کے پسندیدہ عالمی خدمات فراہم کرنے والے مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ کئی خطوں میں دوسرے ممالک ہندوستان سے خدمات لے رہے ہیں، خاص طور سے انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی) اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں دوسرے ممالک کے ذریعہ ہندوستان میں کام کروانے(آؤٹ سورس) کا کاروبار تیزی سے بڑھا ہے۔ حکومت نے بھی ملک کو عالمی خدمات فراہم کرنے والا مرکز بنانے کے لیے پالیسی مراعات(policy incentives) کی سمت میں قدم بڑھائے ہیں۔ لیکن ابھی اس سمت میں کئی چیلنجز ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ملک میں سروس فراہم کرنے والی صنعت کا ڈھانچہ کمزور ہے۔ دوسرا اس صنعت کے لیے زراعت، صحت، تعلیم، ہنر، فون یا دیگر ٹیلی مواصلات کے ذرائع کے ذریعہ میڈیکل اور دیگر نئی تکنیکی وسائل کی کمی ہے۔ تیسرا چیلنج خدمت فراہم کرنے والی صنعت کے لیے ضروری نئی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مشینی انسان اور ورچوئل ٹیکنالوجی وغیرہ سے لیس صلاحیتیوں کی کمی ہے۔ کوسیررا نے اپنی رپورٹ ’گلوبل اسکلس رپورٹ2021‘ میں بتایا ہے کہ ہندوستان عالمی سطح پر ہنر میں بہت پیچھے یعنی 67ویں مقام پر ہے۔ چوتھا چیلنج چین سے مقابلہ کا ہے جو عالمی خدمات فراہم کرنے والے کاروبار میں ہندوستان کو پیچھے کرنے کے ہدف کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
غور طلب ہے کہ اس سال 23جون کو حکومت نے ہندوستان کے بی پی او(بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ) صنعت کو بڑھاوا دینے کے مقصد سے اہم فیصلے کیے۔ حکومت نے بی پی او یعنی ٹیلی فون کے ذریعہ صارفین کو خدمت دینے والے شعبوں کے لیے ہدایات کو آسان، واضح اور بے لوث بنایا ہے۔ اس کے تحت گھریلو اور بین الاقوامی یونٹوں کے درمیان فرق کو ختم کردیا گیا ہے اور دیگر خدمت فراہم کرنے والوں(اوایس پی) کے درمیان وابستگی کی اجازت سمیت کئی مخصوص رعایتیں دی ہیں۔ او ایس پی سے مراد ایسی کمپنیوں یا یونٹوں سے ہے جو ٹیلی مواصلات وسائل کا استعمال کرکے آئی ٹی سوٹیبل خدمات، کال سینٹر یا دیگر طرح کی خدمات دے رہی ہیں۔ اس میں فون سے مارکیٹنگ، ٹیلی میڈیسن وغیرہ خدمات شامل ہیں۔ ایسی نئی ہدایات سے بی پی او کے تحت زیادہ کاروبار کرنے میں آسانی یقینی ہوسکے گی، ریگولیٹری وضاحت آئے گی، لاگت کم ہوگی اور وسائل کا بہتر استعمال ہوسکے گا۔
آؤٹ سورسنگ کا مطلب کسی بھی کام کو انڈسٹریل-بزنس انسٹی ٹیوٹ کیمپس کے باہر ملک یا غیرممالک میں کہیں بھی کفایتی شرحوں پر پورا کروانے سے ہے۔ یہ اطلاع تکنیکی ترقی سے ہی ممکن ہوسکی ہے۔ یہ سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، کناڈا سمیت دنیا کے کئی ممالک آئی ٹی، فائنانس، میڈیکل، انشورنس، بینکنگ، تعلیم وغیرہ ایسے کئی علاقوں میں بھاری مقدار میں بچت رقم حاصل کرنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوئے ہیں کیوں کہ وہ اپنا زیادہ تر کام کاج ہندوستان سمیت کچھ دوسرے ممالک سے کروا رہے ہیں۔ دراصل، مغربی اور یوروپی ممالک میں مزدوری کی قیمت ہندوستان کے مقابلہ میں کئی گنا مہنگی ہے۔ اس سے کسی بھی خدمت کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ کووڈ-19کے مدنظر امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کی ترقی میں صنعتوں کی پیداوار لاگت کم کرنے کے لیے باہر سے ہی کام کروانا فائدہ مند سمجھا جارہا ہے۔

نئـی نسـل کـو آئـی ٹـی کـے نئـے دور کـی تـعـلـیـم دینـے کـے لیـے مناسب سـرمـایـہ کاری کا انـتـظام کـرنا ہـوگا۔ نئـی نسـل کـو ریسـرچ، جدت اور مقابلہ کـے پـیـمــانـہ پـر آگـے بـڑھـنـا ہـوگا۔ مـصـنـوعـی ذہـانت، روبـوٹ تکنیک، انـٹـرنیٹ، ڈاٹـا تـجـزیـہ، کلاؤڈ کـمـپـیـوٹـنـگ اور بلاک چین جیسے شـعـبـوں مـیـں بـڑی تعداد میں نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ تبھی امریکی بازار کـے ساتھ ساتھ یـوروپ اور ایشیا پیسفک ریجن کے ممالک اپنے کام کے لیے ہندوستان کی جانب بڑھیں گے۔

دوسرے ممالک کے کام کا ٹھیکہ لینے اور انہیں خدمات دینے کے معاملہ میں ہندوستان کے سب سے آگے رہنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن انڈسٹری کے پرائیوٹائزیشن کے بعد نئی کمپنیاں بازار میں آئیں اور مقابلہ بڑھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ٹیلی کام کے نرخ میں بھاری گراوٹ آئی۔ اعلیٰ معیار کی فوری خدمت، آئی ٹی ماہرین اور انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسے اسباب ہیں، جن کی بدولت ہندوستان پوری دنیا میں خدمات دینے والے ملک کے طور پر اپنا مقام بناچکا ہے۔ وبا کے دوران گھر سے کام اور مقامی طور پر تقرریوں پر زور دیے جانے سے ہندوستان کی اہم آئی ٹی کمپنیوں کا کاربن اخراج کم ہونا بھی ہندوستان کے لیے فائدے مند ہوگیا۔ جہاں کاربن کے اخراج میں کمی کی بنیاد پر بھی خدمت فراہم کرنے والے کاروبار میں زبردست اضافہ کے امکانات پیدا ہوئے، وہیں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کو امریکی کمپنیوں سے کام ملنے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی صنعت- تجارت کورونا کے چیلنجز کے بعد آگے بڑھنے کے لیے ہندوستان سے ٹھیکہ پر زیادہ سے زیادہ کام کرانے کے لیے بے چین نظر آرہا ہے۔
غورطلب ہے کہ 200سے زائد آئی ٹی کمپنیاں دنیا کے 80سے زیادہ ممالک میں کام کررہی ہیں۔ اس وقت ہندوستانی آئی ٹی صنعت میں روزگار کے مواقع بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وزارت ٹیلی مواصلات کے مطابق ہندوستان میں بی پی او سیکٹر میں تقریباً 14لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے۔ ہندوستان کی بی پی او صنعت کا سائز2019-20میں 37.6ارب ڈالر(تقریباً2.8لاکھ کروڑ روپے) کا تھا جو 2025تک55.5ارب ڈالر(تقریباً 3.9لاکھ کروڑ روپے) کی سطح پر پہنچنے کی امید ہے۔ دوسرے ممالک کو ٹھیکہ پر خدمات مہیا کرانے والا ہندوستان کا یہ سیکٹر غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی کشش کا بڑا سبب بن گیا ہے۔ اس کاروبار کی بنیادی وجہ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈویئر سیکٹر میں برائے راست غیرملکی سرمایہ کاری(foreign direct investment)(ایف ڈی آئی) کا فلو تیزی سے بڑھا ہے۔ گزشتہ مالیاتی سال 2020-21کے پہلے 9ماہ میں(اپریل-دسمبر) اس سیکٹر میں ایف ڈی آئی کا فلو تقریباً چار گنا ہوکر 24.4ارب ڈالر پر پہنچ گیا۔ اس سے گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں اس سیکٹر میں یہ صرف6.4ارب ڈالر رہا تھا۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ عالمی سطح پر اس سیکٹر میں جو بڑی تبدیلی آئی ہے، اس کے مدنظر ملک کی خدمات فراہم کرنے والی صنعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے حکومت نے پیداوار پر مبنی مراعات اسکیم (Production Linked Incentive Scheme)(پی ایل آئی)کا دائرہ آئی ٹی ہارڈویئر تک وسیع کردیا ہے۔
ملک کو عالمی خدمات کا بڑا مرکز بنانے کے لیے مواصلات کے ڈھانچہ کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ہوائی اڈہ، سڑک اور بجلی جیسے بنیادی وسائل کو بھی تیزی سے فروغ دینا ہوگا۔ خدمات فراہم کرنے والی صنعت کے لیے زراعت، صحت، فون پر علاج، تعلیم اور ہنر کے شعبہ سے متعلق نئے تکنیکی حل کرنے ہوں گے۔ ساتھ ہی اس شعبہ کو یہ حکمت عملی بنانی ہوگی کہ کس طرح کے کام دوسرے مقامات سے کیے جاسکتے ہیں اور کون سے کام دفتر سے کروائے جاسکتے ہیں۔ اب اس خدمت فراہم کرنے والی صنعت کو بڑے شہروں کی سرحدوں کے باہر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی لے جانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے نئے چھوٹے کاروباروں کے بانیوں کو بھی عالمی سطح کے پروڈکٹس بنانے پر توجہ دینی ہوگی، جس سے سروس ایریا میں عالمی مقابلہ میں جگہ بنائی جاسکے گی۔ خدمت فراہم کرنے والے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ٹیلنٹ پر زور دینا ہوگا۔ تکنیکی طور سے ہنرمند لوگوں کی دستیابی قائم رکھنی ہوگی۔ نئی نسل کو آئی ٹی کے نئے دور کی تعلیم دینے کے لیے مناسب سرمایہ کاری کا انتظام کرنا ہوگا۔ نئی نسل کو ریسرچ، جدت(innovation) اور مقابلہ کے پیمانہ پر آگے بڑھنا ہوگا۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹ تکنیک، انٹرنیٹ، ڈاٹا تجزیہ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بلاک چین جیسے شعبوں میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ تبھی امریکی بازار کے ساتھ ساتھ یوروپ اور ایشیا پیسفک ریجن کے ممالک اپنے کام کے لیے ہندوستان کی جانب بڑھیں گے۔ عالمی خدمت فراہم کرنے والا بننے سے ملک میں روزگار میں اضافہ ہوگا اور فارن ایکسچینج کی کمائی بھی بڑھے گی اور ملک کی معیشت نئی اونچائیاں چھوسکتی ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS