شـیـخ عـائـشـہ امـتـیـازعـلـی
حضرت سمیہؓ کا شمار ان بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی راہ میں سخت ترین اذیتوں کا سامنا کیا۔ حضرت سمیہ ؓنے باوجود اس کے کہ آپؓ کمزور اور ضعی ف تھیں سخت تکالیف برداشت کیں لیکن کلمہ حق کہنے سے کبھی باز نہ آئیں۔ آپؓ کا شمار مکہ کے ان سات افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے اول وقت میں اسلام قبول کرلیا تھایعنی حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت بلال ؓ‘ حضرت خباب ؓ‘ حضرت صہیبؓ، آپؓ کے شوہر حضرت یاسرؓ،اورآپ کے فرزندحضرت عمارؓ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف سچے دل سے داعی اسلام ،رحمۃ اللعالمین حضرت محمدؐ کی آوازحق پر لبیک کہا بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ ان کا جذبہ اور ایمان واقعی صادق ہے،اس وقت جب قبائل عرب جہالت اور بے راہ روی کی اندھا دھند تقلید میں حق اور باطل کے فرق کو فراموش کرچکے تھے اور اپنے عقائد و رسوم سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے ان افراد کا اسلام کو قبول کرنااسلام کے مخالفین کو کھلی مخالفت کی دعوت دینا تھا لیکن اس چھوٹے سے خاندان (شوہر حضرت یاسرؓ فرزند حضرت عمارؓاور حضرت سمیَّہؓ) نے نتائج و مصائب سے بے پروا ہوکر پرچم توحید کو مضبوطی سے تھام لیامشرکین نے اہل حق کے ان پروانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ حضرت سمیہ ؓکا عالم پیری تھا اور پھر بہ حیثیت عورت بھی وہ ایک صنف نازک تھیں لیکن اسلام کے مخالفین نے ان کے شوہر اور فرزند کے ہمراہ انہیں بھی سخت سزائیں دیں‘ ان لوگوں نے آپؓ کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا کیا تاکہ مکہ کے چمکتے ہوئے سورج کی تپش سے یہ لوہا گرم ہوکر آ پؓکے نازک جسم کو اذیت ناک جلن دے اور نتیجتاآپؓکلمہ حق سے باز آجائیں‘ مگر عشق رسول ان مقدس ہستیوں کے رگ و پے میں اس درجہ سرایت کرچکا تھا کہ کسی صورت بھی یہ واپس شرک کی طرف لوٹنے والوں میں نہ ہوئے،رسول کریم ؐجب ان کو بنومغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن محزوم کی طرف سے دی گئی اذیتوں میں مبتلا اور مکہ کی گرم دوپہروں میں جلتا دیکھتے تو فرماتے ’’اے آل یاسر‘ ہمت نہ ہارنا‘ اللہ نے تم سے جنت کا وعدہ کیا ہے،غرض اسلام کی محبت میں سارا دن یہ عذاب جھیلتے گزر جاتا۔ ایک دن رات کو ابوجہل حضرت سمیہؓکے پاس آیا اور ان پر سخت غصہ ہواکہنے لگا’’اے بڑھیا! تو سٹھیا گئی ہے کہ اپنے ساتھ اپنے خاوند اور بیٹے کو بھی بددین کرڈالا‘‘یہ کہتے کہتے اتنا غضب ناک ہوا کہ بے چاری بزرگ عورت حضرت سمیہ ؓکو اس زور سے کھینچ کر برچھی ماری کہ اس صدمے اور تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اسی وقت شہید ہوگئیں۔
اسلام کی پہلی شہیدخاتون حضرت سمیہ ؓکا پورا نام سمیہ بنت خباط تھا،مکہ کا جو شخص بھی اسلام قبول کرتا مشرکین قریش کے غیظ غضب اور لرزہ خیز جور و تشدد کا نشانہ بن جاتا، مشرکین اس معاملے میں اپنے عزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے،حضرت یاسرؓ اور آپؓکے فرزند غریب الوطن تھے اور حضرت سمیہؓ کو ابھی بنومخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا ان بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی، حضرت یاسر ؓاور حضرت سمیہ ؓدونوں بے حد ضعیف تھے مگر ان کی قوت ایمانی انتہائی مضبوط تھی مضبوط اورہمت وجرات کی یہی خوبی ان کے بیٹوں میں موجود تھی،جب حضرت سمیہ ؓنے اسلام کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی عورت کا اعزاز پایا۔
اسلام کی پہلی شہیدخاتون حضرت سمیہ ؓکا پورا نام سمیہ بنت خباط تھا،مکہ کا جو شخص بھی اسلام قبول کرتا مشرکین قریش کے غیظ غضب اور لرزہ خیز جور و تشدد کا نشانہ بن جاتا، مشرکین اس معاملے میں اپنے عزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے،حضرت یاسرؓ اور آپؓکے فرزند غریب الوطن تھے اور حضرت سمیہؓ کو ابھی بنومخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا ان بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی، حضرت یاسر ؓاور حضرت سمیہ ؓدونوں بے حد ضعیف تھے مگر ان کی قوت ایمانی انتہائی مضبوط تھی مضبوط اورہمت وجرات کی یہی خوبی ان کے بیٹوں میں موجود تھی،جب حضرت سمیہ ؓنے اسلام کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی عورت کا اعزاز پایا تو حضرت عمارؓکواپنی والدہ کی مرگ بے کسی کا سخت صدمہ ہواوہ حضور ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یارسول اللہ! اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے،حضور نے صبر کی تلقین کی اور دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! آل یاسر کو دوزخ سے بچا‘‘حضرت عمار ؓتو بیٹا ہونے کی حیثیت سے اپنی ماں کی درد ناک شہادت کو کبھی بھول نہیں سکتے تھے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت سمیہ ؓکی بے کسی اور تکلیف، جب بھی اسلام کی تاریخ رقم ہوگی پورے دکھ اور کرب کے ساتھ محسوس کی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ خود سرور کونین حضرت محمدکو بھی ابوجہل کا یہ ظلم اور حضرت سمیہ ؓکی تکلیف یاد رہی چنانچہ رمضان۲ہجری میں جب معرکہ بدر پیش آیا اور اس میں ابوجہل واصل جہنم ہوا تو آنحضورؐ نے حضرت عماربن یاسرؓکو بلا کر ارشاد فرمایا’’اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا‘‘حضرت سمیہ ؓکی شہادت ہجرت نبوی سے کئی سال قبل ہوئی‘ اس لیے تمام اہل سیر نے انہیں اسلام کی شہیداول قرار دیا ہے۔ n