چین وقت کی خوبی یہ ہے کہ وہ یکساں نہیں رہتا، بدلتا رہتا ہے۔ اسی کی مناسبت سے حالات بدلتے ہیں۔ طاقتور ممالک کمزور اور کمزور ممالک طاقتور ہو جاتے ہیں۔ کبھی کسی ملک کے پاس دولت رہتی ہے، کبھی کوئی اور ملک دولت مند ہوجاتا ہے۔ منسا موسیٰ کے وقت میں مالی بہت دولت مندتھا، منسا سفر حج میں اتنا سونا بانٹتے ہوئے گئے تھے کہ مصر سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں سونے کی قیمت بالکل گرگئی تھی، اس کا اثر ان کی اقتصادیات پر پڑا تھا۔ آج مالی کا شمار غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکی کی حیثیت وہی تھی جو کبھی سوویت یونین کی تھی اور آج امریکہ کی ہے۔ مطلب یہ کہ کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ اس کے باوجود دانشمند لیڈروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کو مستحکم رکھیں۔ یہی کوشش امریکہ کے صدر نوجائیڈن کر رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ 2028 تک چین کے نمبر وَن اقتصادی طاقت بننے کی بات کہی جا رہی ہے، اس لیے جو کرنا ہے، اگلے 5 برس میں ہی کرنا ہوگا، ورنہ چین جیسے بڑی بحری طاقت بن کر ابھرا ہے اسی طرح اگر اس کی فضائی فوج نے امریکہ کی فضائی فوج پر برتری حاصل کر لی تو پھر امریکہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ چین مستقبل کی اسٹرٹیجی کے مدنظر ہی خلا پر توجہ دے رہا ہے۔ اسپیس اسٹیشن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس نے دانستہ طور پر اپنی کرنسی یوآن کی قدر کم رکھی ہوئی ہے تاکہ اس کا فائدہ تجارت میں اٹھا سکے۔ چین راست یا بالوساطہ طور پر 150 ملکوں قرض دے چکا ہے یا اس نے انہیں ادھار میں اشیا دی ہے۔ اس نے 1.5ٹریلین ڈالر راست قرض دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ جبوتی، جمہوریہ کونگو اور مالدیپ جیسے ملکوں کو اس نے اس کی جی ڈی پی کے 20 فیصد کے برابر قرض دے رکھا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی سمجھ میں غالباً یہ بات آچکی ہے کہ چین سے امریکہ صرف ٹریڈ وار کر کے نہیں جیتے گا، اسے شکست دینے کے لیے ’ٹرومین ڈوکٹرین‘پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ بات الگ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ’ٹرومین ڈوکٹرین ‘ کی ضرورت سوویت یونین کے بڑھتے دائرہ اثر کو محدود کرنے کے لیے پڑی تھی اور آج اس کی ضرورت چین کے بڑھتے دائرہ اثر کو محدو کرنے کے لیے ہے، کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اگر کوئی ملک چین کا ساتھ چھوڑنا بھی چاہے گا تو نہیں چھوڑ پائے گا۔ چین اس سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے گا اور یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا، چنانچہ جو بائیڈن نے ’بی 3 ڈبلیو‘ یعنی ’بلڈ بیک بیٹرورلڈ‘کی تجویز پیش کی ہے۔ اسے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈاینی شی ایٹو‘ کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’بی 3 ڈبلیو‘کے تحت موسمی تبدیلی، ہیلتھ کیئر سسٹم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، صنفی مساوت اور مساوت کے سلسلے میں کام کرنے کے لیے جی-7 ممالک 2035 تک 40 ٹریلین امریکی ڈالر پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کو فراہم کرائیں گے۔ یہ رقم خطیر ہے، ابھی اسی پر شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی، کیونکہ دو جنگیں لڑنے کے بعد امریکہ خود قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا قرض جاپان اور چین کا ہے مگر یہ بھی بڑی بات ہے کہ چین کو لگام دینیکے لیے بائیڈن متحرک ہیں۔
ابھی تک روس چین کے ساتھ نظر آتا ہے اور امریکہ سے اس کی دوسری نظر آتی ہے جبکہ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ روس کا جھکاؤ جدھر ہوگا، طاقت کا توازن بھی ادھر ہی ہوگا۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں امریکہ نے روس کو ساتھ لینے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی امریکہ ہے جس نے 1970 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف چین سے ہاتھ ملایا تھا۔ 50 سال میں حالات کافی حد بدل گئے ہیں، امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا۔ اسے چین کے خلاف روس کو ساتھ لینا ہوگا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو چین کے لیے ایکدم سے مشکلات بڑھ جائیں گی، ورنہ امریکہ کے لیے چین کو سبق سکھانا آسان نہیں ہوگا، یہ بات خود امریکی لیڈر بھی سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار کرنے سے وہ جھجکتے نہیں ہیں!
کیوں چین سے مقابلہ کیلئے امریکہ کمربستہ ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS