برصغیر کے معروف اداکار دلیپ کمار کچھ دنوں سے علیل تھے۔ انہیں سانس لینے میں شکایت کے بعد سات جولائی کو علی الصبح ہسپتال میں داخل کرایا گیا تاہم صبح ساڑھے سات بجے ان کا انتقال ہوگيا۔ اس ماہ کے اوائل میں بھی اسی عارضے کے باعث انہیں اسپتال میں رکھا گیا تھا۔
بھارتی فلموں کے شہرہ آفاق اداکار دلیپ کمار نے اپنی فطری اداکاری کے ساتھ مختلف النوع کرداروں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دنیا بھر کے شائقین اور مداحوں کا دل جیتنے کے ساتھ ہی انہوں نے شہرت کی بلند ترین منزلیں طے کیں۔ وہ اپنی خوبصورت شکل و صورت کے ساتھ ہی گھمبیر آواز میں مکالموں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
دلیپ کمار کا اصلی نام یوسف خان تھا اور وہ غیر منقسم ہندوستان کے شہر پشاور میں ایک پشتون خاندان میں گيارہ دسمبر سن 1922 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور جبکہ والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کا آبائی مکان آج بھی محفوظ ہے اور اسے اب حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دے دیا ہے۔
ان کے والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے اور بچپن میں دلیپ کمار بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ روزگار کی تلاش میں کم عمری میں ہی انہوں نے صنعتی شہر بمبئی کا سفر کیا اور بمبئی پہنچ کر برطانوی فوج کی ایک کینٹین میں کام کرنا شروع کیا۔
اسی کینٹین میں اس وقت کی معروف اداکارہ دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رائے کی ان پر نظر پڑی۔ اس خوبرو نوجوان سے بات چیت کے بعد انہیں فلم میں اداکاری کی پیشکش کی۔ دیویکا رانی نے ہی انہیں یوسف خان کے بجائے دلیپ کمار نام اپنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ دلیپ کمار کی بطور اداکار سن 1944 میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ‘جوار بھاٹا’ تھی۔ باکس آفس پر یہ کوئی بہت کامیاب فلم نہیں تھی۔
تین برس بعد1947 میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ فلم ‘جگنو’ کی اور یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی جس کی وجہ سے فلمی دنیا میں ان کی پہچان بڑھ گئی۔ پھر سن 1949 میں انہوں نے اس وقت کے بڑے اداکار راج کپور کے ساتھ مل کر فلم ‘انداز’ میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیں۔ اسی فلم میں ان کے شاندار اسٹائل اور عمدہ لب و لہجے نے انہیں ایک مقبول اسٹار بنا دیا۔
انداز کی شاندار کامیابی کے بعد ان کے انتہائی یادگار فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ سن 1951 میں انہوں نے فلم ‘دیدار’ کی اور اگلے ہی برس ان کی مشہور فلم داغ ریلیز ہوئی۔ ان دونوں میں انہوں نے ایک ٹریجڈی ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے جن جذبات اور تاثرات کا اظہار کیا، اس سے نہ صرف فلم شائقین محظوظ ہوئے بلکہ فلمی امور کے ماہرین نے بھی ان کی کردار نگاری کو خوب سراہا۔ داغ فلم میں بہترین اداکاری کے لیے انہیں پہلے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گيا۔ سن 1955 میں ان کی شہرہ آفاق فلم ‘دیوداس’ آئی اور اس کے لیے بھی انہیں فلم فیئر ایورڈ دیا گیا۔
فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلا
اس دور میں بیشتر فلموں میں اسکرین پر ان کی شخصیت کو ایک بہت ہی غمزدہ اور قسمت و حالات کے مارے ہوئے انسان کے کردار میں پیش کیا گيا۔ ایسے کرداروں میں انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کے ایسے ان مٹ نقوش ثبت کیے کہ انہیں ٹریجڈی کنگ یعنی شہنشاہ جذبات کے لقب سے نوازا گیا اور پھر یہی لقب ان کی پہچان بن گيا۔
وقت کے ساتھ ہی بالی وڈ میں ان کا وقار بڑھتا چلا گیا اور بہت سی فلموں میں انہین رومانی ہیرو کے لیے کاسٹ کیا گیا۔ ان میں ‘آن’، ‘آزاد’ ‘انسانیت’ اور ‘کوہ نور’ جیسی کامیاب فلمیں اس بات کی گواہ ہیں کہ دلیپ کمار نے رومانٹک ہیرو کے طور پر بھی ایک شاندار روایت چھوڑی۔ سن 1960 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم مغل اعظم جہاں خود ایک شاہکار تھی وہیں مغل شہزادے سلیم کے کردار میں ان کی اداکاری کے جوہر کا سب نے اعتراف کیا۔
ان کی فلم، مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما بالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہیں، جو باکس آفس میں بھی سپر ہٹ رہیں۔ راج کمار کے ساتھ فلم ‘سوداگر’ اور امیتابھ بچن کے ساتھ ‘شکتی’ بھی قابل ذکر فلمیں ہیں، جس میں انہوں نے اپنے ہم عصر سپر اسٹاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک الگ انداز اور شناخت پیش کی۔ بڑے پردے پر ان کی آخری فلم 1998میں ‘قلعہ’ آئی تھی۔ دلیپ کمار نے متعدد بار فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور سن 2015 میں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سویلین اعزاز ‘پدم بھوشن‘ اور 1994میں فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ’ سے نوازا گیا تھا۔ سن 1997 میں حکومت پاکستان نے بھی دلیپ کمار کو اپنے اعلی سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا۔
کانگریس پارٹی نے دلیپ کمار کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا اور اس طرح وہ چھ برس تک رکن پارلیمان بھی رہے۔
دلیپ کمار نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ابتدا میں بطور اداکار وہ اشوک کمار کی کے انداز سے بہت متاثر تھے پھر اشوک کمار نے ہی ان سے نیچرل انداز اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔ اشوک کمار اور دلیپ قریبی دوست بھی تھے۔ اس دور میں راج کپور، دیوا آنند اور دلیپ کمار بالی ووڈ کے سب سے بڑے نام تھے اور یہ تینوں آپس میں گہرے دوست بھی تھے۔
اردو ادب سے محبت
یوسف خان کی تعلیمی لیاقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم انہیں اردو ادب سے بڑی دلچسپی تھی اور انہیں جب بھی موقع ملتا وہ نہ صرف اس زبان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کئی بڑے مشاعروں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی طور پر بھی ایسی محفلوں کا انعقاد کرتے رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یوسف خان کو کرکٹ کا بھی کافی شوق تھا اور پکوان میں بھی دلچسپی تھی۔
محبت کی داستانیں
ایک دور میں دلیپ کمار کے ان کی ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ معاشقوں کے بھی کافی چرچے رہے۔ اس میں سب سے پہلے کامنی کوشل کا نام آتا ہے۔ مدھو بالا سے ان کے تعلق کے بارے میں بھی کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلا۔
تاہم بعد میں بعض اختلافات کے سبب دونوں میں ایسا اختلاف پیدا ہوا کہ فلم مغل اعظم کے بعد کبھی بھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ اس کے بعد اداکارہ وجنتی مالا سے بھی ان کے افیئر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ پردے پر بھی دلیپ کمار اور وجنتی مالا کی جوڑی بھی بہت کامیاب رہی۔ دلیپ کمار نے سب سے زیادہ کام بھی انہیں کے ساتھ کیا۔
شادیاں
سن 1966 میں دلیپ کمار نے اداکارہ سائرہ بانو سے پہلی شادی کی، جو عمر میں ان سے 22 برس چھوٹی تھیں۔ سن 1981 میں انہوں نے حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون اسما صاحبہ سے دوسری شادی کی۔ تاہم یہ دوسری شادی زیادہ دیر تک نہیں چل سکی اور 1983 میں طلاق ہو گئی۔
دلیپ کمار کو ان دونوں بیویوں سے کوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی۔ اپنی سوانح عمری ‘دلیپ کمار: سبسٹنس اینڈ دی شیڈو’ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سن 1972 میں، “سائرہ بانو امید سے تھیں تاہم حمل کے آٹھویں ماہ میں سائرہ کو پیچیدگیاں شروع ہوئیں اور بالآخر ڈاکٹر بچے کو بچا نہ سکے۔” اس کے بعد دونوں نے خدا کی مرضی سمجھ کر کے کبھی دوبارہ کوشش نہیں کی۔
سائرہ بانو اور دلیپ کمار نے سن 2013 میں مکہ کا سفر کیا اور ایک ساتھ حج ادا کیا۔