مرزا اے بی بیگ
جولائی 10 سنہ 1800 ایک یادگار تاریخ ہے کیونکہ ہندوستان کے اس وقت کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک کلکتہ کے فورٹ ولیم میں ایک کالج کا قیام عمل میں آتا ہے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس وقت کے گورنر جنرل انگلینڈ میں بورڈ آف ڈائریکٹروں کو ایک خط لکھتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اس کا قیام 4 مئی 1800 مانا جائے۔
وہ چاہتے تھے کہ انگریزوں کے ہاتھوں ‘شیر میسور’ ٹیپو سلطان کی شکست اور موت کی پہلی سالگرہ کے طور پر اس کالج کے قیام کو یادگار بنایا جائے۔ لارڈ ویلزلی اس کو ‘آکسفورڈ آف دی ایسٹ’ یعنی مشرق دنیا کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی حیثیت سے پروان چڑھانا چاہتے تھے۔
لیکن یہ کالج جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے برصغیر کی تقدیر لکھنے میں اہم کردار ادا کیا اس کا وجود چند سالہ ثابت ہوا تاہم اس کے اثرات دو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی پائے جاتے ہیں۔
اس کا قیام تو نوجوان انگریزوں کو ہندوستانی زبان و ادب اور مشرقی علوم و فنون سے روشناس، آراستہ و پیراستہ کروانے کے لیے عمل میں آیا تھا لیکن اس نے ہندوستانی زبان و ادب کا رخ موڑ دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے لندن میں موجود بورڈ آف ڈائریکٹر اس کے قیام کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں اس کام کے لیے انگلینڈ میں تعلیم کا نظام موجود تھا جہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو انڈیا بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں انگریزوں کے تسلط کو مضبوط اور مستحکم بنا سکیں۔
فورٹ ولیم کالج اپنی ابتدا سے ہی انگریزوں کے درمیان ہی تنازعے کا شکار رہا اور بعد میں ہندوستانیوں کے درمیان بھی بڑے تنازع کا سرچشمہ ثابت ہوا۔
چنانچہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی ‘بانٹو اور راج کرو’ کی پالیسی کی طرح یہیں سے پہلی بار اردو اور ہندی کا فرق ایک شگاف کے طور پر ابھرا جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچا کہ ہندوستان بالآخر دو ممالک انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا اور پھر پاکستان سے زبان اور جغرافیائی و سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش بھی وجود میں آیا۔
ہگلی ندی کے پار فورٹ ولیم
بہت سے ناقدینِ ادب اس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فرق پہلے سے ہی موجود تھا کیونکہ یہاں ہر کوس دو کوس پر پانی اور وانی یعنی بولی بدل جاتی ہے چانچہ بہت سے مستشرقین نے انڈیا کو ‘زبانوں کا عجائب خانہ’ بھی کہا ہے۔
ان میں سے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ لوگ ایسٹ انڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر اپنا اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے یا اپنی کھچڑی الگ پکانے کے لیے زبان کی بنیاد پر تقسیم و تفریق کے دعوے کر رہے تھے۔
فورٹ ولیم کے قیام سے قبل
سنہ 1757 میں سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو انڈیا میں پاؤں جمانے کا موقع فراہم کیا لیکن لارڈ کلائیو کی قیادت میں ہی بنگال کے نواب میر قاسم کے خلاف سنہ 1764 میں ہونے والی بکسر کی جنگ نے پورے بنگال پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو مستحکم کر دیا۔
اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ انھیں یہاں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کے کام کاج کے انتظام و انصرام میں ان کی مدد کر سکیں اور اسی کے پیش نظر گورنر جنرل وارن ہیسٹنگس نے اکتوبر سنہ 1780 میں کلکتہ مدرسہ قائم کیا جسے بعد میں مدرسہ عالیہ کے نام سے جانا گیا۔
اس مدرسے کے ایک سال کا خرچ انھوں نے اپنی جیب سے پورا کیا جسے بعد میں انگریزوں کی بنگال میں قائم حکومت نے منظور کر لیا اور وارن ہیسٹنگس نے سال بھر تک جو خرچ کیا تھا وہ انھیں واپس ادا کر دیا گیا۔
اس کے چار سال بعد کلکتہ سپریم کورٹ کے جج سر ولیم جونز کی تجویز پر ایشیا اور بطور خاص جنوبی ایشیا کے مطالعے کے لیے ‘ایشیاٹک سوسائٹی’ کا قیام عمل میں آیا۔
اسی طرح فورٹ ولیم کے قیام سے قبل ہمیں گلکرسٹ کا مدرسہ نظر آتا ہے جسے بعد میں فورٹ ولیم میں ضم کر دیا گیا کیونکہ گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔
واضح رہے کہ گلکرسٹ ایک سرجن یا معالج کے طور پر انڈیا لائے گئے تھے اور ان کی تعیناتی کلکتے کے بجائے بمبئی میں ہوئی تھی لیکن پھر ان کا تبادلہ ہوتا رہا اور وہ شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں خاصا وقت گزارنے کے بعد کلکتے پہنچے تھے۔
انھوں نے ہی پہلی بار یہ محسوس کیا اور دعویٰ بھی پیش کیا کہ اس ملک میں ایک زبان ایسی ہے جو پورے شمال ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسے انھوں نے ‘ہندوستانی’ زبان کا نام دیا۔ بہر حال یہ بحث الگ ہے کہ اس وقت اردو یا ہندی کا علیحدہ علیحدہ تصور تھا کہ نہیں۔
فورٹ ولیم کالج پر تحقیق کرنے والے اور جواہر لعل نہرو کے سابق پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے گلکرسٹ کے حوالے سے اپنی کتاب ‘گلکرسٹ اینڈ دی لینگویج آف ہندوستان’ میں کہا ہے گلکرسٹ کو یہاں کی زبان سیکھنے میں اتنی دشواری پیش آئی کہ انھوں نے ہندوستانی زبان کی ایک گرامر تحریر کر دی جو کہ پہلی ایسی کتاب تھی جس کی بنیاد پر انگلینڈ سے آنے والوں کو تعلیم دی جانے لگی۔
فورٹ ولیم کا ایک حصہ
دہلی یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر ہریش ترویدی کا خیال ہے کہ گلکرسٹ سے ہندوستان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی اور انھوں نے تو ہندی اور بنگلہ زبانوں کو بھی ایک سمجھ لیا تھا۔
ان کی ایک غلطی کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے سنہ 2019 میں ریختہ کے ایک پروگرام میں کہا کہ ‘گلکرسٹ تاج محل کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہاں شاہ جہاں اور ان کی اہلیہ نور جہاں دفن ہیں۔’ انھوں نے بتایا کہ یہ اب انھیں کون بتائے کہ وہاں جہاں جیسے سر نیم کی بات نہیں تھی۔
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اردو زبان کے معروف شاعر مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری اور قصائد سے سیکھی جبکہ آج کے دور میں اردو کے استاد بھی سودا کے قصائد کو بہت آسانی سے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
فورٹ ولیم کے قیام کا مقصد
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریز سول سروینٹس کو ہندوستان کی زبان ثقافت اور عدالتی نظام سے روشناس کروانے کے لیے ہوا تھا۔ لیکن اس ادارے کے پورے ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو یہ براہ راست چرچ آف انگلینڈ کے زیر اثر تھا۔ اس کا ایک بڑا مقصد کرسچن مشنری کاموں کو سرانجام دینا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1799 میں جنوبی ہند کے سری رنگاپٹنم میں جب ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی تو وہاں سے انگریزوں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ حاصل کیا اور اسے دیکھ کر کہا کہ اب انڈیا میں بائبل کی ترویج و اشاعت کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ وہ وقت بنگال میں نشاۃ الثانیہ کا دور تھا اور رام موہن رائے جیسے مفکر اس کے سرخیل تھے۔ چنانچہ ہر طرح کے خیالات کے لیے وہاں گنجائش موجود تھی۔
لارڈ ویلزلی
کالج کا قیام 10 جولائی کو عمل میں آیا جب کہ اس کا سٹیچیوٹ 18 اگست کو منظور کیا گیا لیکن ٹیپو سلطان کی شکست کی تاریخ کو یادگار بنانے کے لیے اس کے قیام کا دن 4 مئی قرار پایا۔ بہر حال کالج کا پہلا سیشن چھ فروری سنہ 1801 سے شروع ہوا۔
کالج کے سٹیچیوٹس میں اس کے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
‘فورٹ ولیم کالج کا قیام بہت حد تک مسیحی مذہب کی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور اس کا مقصد نہ صرف مشرقی ادبیات کا فروغ ہے بلکہ طلبہ کو انڈیا کے برطانوی سامراج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت جہاں انھیں مقرر کیا جاتا ہے وہاں وہ برطانیہ کے پرمغز قانون اور آئین کو نافذ کریں گے اور کرّہ کے اس حصے میں عیسائی مذہب کی سربلندی کے لیے کام کریں گے۔ اس میں اس وقت تک کسی کو بھی اعلیٰ عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا یا پروفیسر نہیں بنایا جائے گا جب تک کہ وہ عالی مقام شاہ برطانیہ سے وفاداری کا عہد نہیں اٹھاتا اور مندرجہ ذیل عہد نہیں کرتا:
‘میں قسم کھاتا ہوں اور صدق نیت سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں عوامی طور پر کوئی ایسا اصول نہیں اپناؤں گا نہ ایسی تعلیمات دوں گا جو مسیحی مذہب کے یا پھر چرچ آف انگلینڈ کے قائم کردہ اصول و ضوابط سے متصادم ہو۔
‘میں قسم کھاتا ہوں اور صدق نیت سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں کھلے عام یا ذاتی طور پر کوئی ایسی چیز نہ کروں کا اور نہ اس کی تعلیم دوں گا جو کہ گریٹ برٹین کے چرچ یا حکومت کے قوانین سے متصادم ہو اور میں ہز میجسٹی کی حکومت سے وفادار رہوں گا۔’
19 ویں صدی میں کلکتہ شہر کا ایک منظر
پہلے اس کے قیام کے لیے کولکتہ کے قلب میں واقع رائٹرز بلڈنگ کی تفویض ہوئی تھی (جو کہ اب مغربی بنگال کی ریاستی حکومت کا سیکریٹریٹ ہے)۔
اس کا استعمال سنہ 1780 سے انگلینڈ سے آنے والے لکھاریوں کے لیے ہوتا تھا جس میں کلاس رومز کے علاوہ ایک سائنس کی لیبارٹری اور پروفیسرز اور انتظامیہ کے سٹاف کے لیے کمرے تھے جبکہ پہلی منزل پر لیکچر روم تھے اور دوسری منزل پر چار کمرے تھے جو کہ 30 فٹ لمبے اور 20 فٹ چوڑے تھے۔ اوپری منزل پر 68 فٹ لمبا اور 30 فٹ چوڑا ایک ہال تھا جسے امتحانی ہال بنانا مقصود تھا۔
لیکن لارڈ ویلزلی کے منصوبے اس سے کہیں زیادہ تھے اس لیے اسے ہوگلی ندی کے کنارے واقع وسیع و عریض قلعے فورٹ ولیم میں قائم کیا گیا۔ یہ قلع کنگ ولیم سوئم کے نام پر رکھا گیا تھا اور اسے سنہ 1700 میں مغل حکمران کی اجازت سے تعمیر کیا گیا تھا۔
ویلزلی نے اس میں مختلف طریقہ انصاف اور قانون کی تعلیم کے ساتھ تاریخ، جغرافیہ، سیاسی معیشت، علم کیمیا، علم نباتات، تجرباتی فلسفہ کے شعبے بھی قائم کیے۔ اس کے علاوہ یونانی اور لاطینی زبانوں کے ساتھ عربی، فارسی، سنسکرت، فرانسیسی، انگریزی اور دیسی زبانیں بھی نصاب کا حصہ تھیں۔
سسر کمار داس اپنی کتاب ‘صاحب اور منشیز’ میں لکھتے ہیں کہ ویلزلی اسے اوریئنٹل سٹڈیز کے ایک اور مرکز کے طور پر ہرگز نہیں لے جانا چاہتے تھے۔
فوٹ ولیم کے طلبہ
صدیق الرحمان قدوائی اور بہت سے دوسرے ماہرین نے شواہد کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس میں جو طلبہ آتے تھے وہ 20 سال یا اس سے کم عمر کے ہوتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت تہذیب یافتہ یا اچھے کردار سے آراستہ نہیں تھے۔
کالج رہائشی یعنی اقامتی ادارہ تھا تاکہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جا سکے۔ صدیق الرحمان قدوائی نے ایک بار ہمیں بتایا کہ ‘جس طرح ہندوستان کے بگڑے دل رئیس زادے اور نوابزادے تھے اسی ڈھرے پر انگلینڈ سے آنے والے یہ نوجوان تھے۔ یہ عیش کوشی کے لیے قحبہ خانے جاتے، مجرے سنتے اور بعض تو ہندوستان کے نوابزادوں کی طرح اچکن بھی پہننے لگے تھے۔’
انھوں نے کہا کہ یہ لڑکے انڈیا آنے کے لیے رشوت بھی دیتے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ یہاں دولت کی ریل پیل ہے اور جتنا انھوں نے رشوت میں دیا ہے اس کا کئی گنا یہ یہاں سے حاصل کر لیں گے۔
آسام یونیورسٹی میں شعبہ ہندی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر شیتانشو کمار نے ‘کمپنی راج اور ہندی’ پر تحقیق کی ہے اور اسی عنوان سے ان کی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گلکرسٹ کے نزدیک بھی پیسے کی بہت اہمیت تھی اور پیسے کے لیے ہی ان کے کالج کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ ایک طرح سے آج کے پبلشر کی طرح تھے جن کا واحد مقصد پیسے کمانا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ واپس انگلینڈ جانے کے بعد انھوں نے باضابطہ طور پر ایک بزنس کھول لیا تھا۔
اگر گلکرسٹ کے کالج سے پہلے کے دنوں پر نظر ڈالیں تو وہ بڑے منافع کے لیے نیل کی کھیتی میں بھی شامل تھے اور نیل کی کھیتی میں ہندوستان کے کاشتکاروں اور مزدوروں کا استحصال مثالی بتایا جاتا ہے۔
فورٹ ولیم کی خدمات
فورٹ ولیم کو اگرچہ نوخیز انگریز حکام کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا لیکن اس کے دور رس اثرات ہندوستان کے زبان و ادب پر مرتسم ہوئے۔
یہاں نہ صرف ہندوستانی یعنی اردو ہندی کی تعلیم دی گئی بلکہ بنگلہ اور تمل کی بھی تعلیم دی گئی۔ ان کے علاوہ اڑیسہ کی زبان اڑیا، پنجاب کی زبان پنجابی اور مہاراشٹر کی زبان مراٹھی کی نثر کے ابتدائی نقوش بھی یہاں ملتے ہیں اور ان کے قواعد بھی یہاں تیار ہوتے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ اردو میں بڑے پیمانے پر نثر کی ابتدا اور اس کے خد و خال تیار کرنے کا سہرا بھی اس کالج کے سر جاتا ہے۔
یہیں فارسی اور دیو ناگری رسم الخط کا معاملہ بھی اٹھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایک زبان کو دو رسم الخط میں لکھنے کی بنیاد یہیں پڑی۔
ماہرین لسانیات میں اس معاملے میں بہت اختلافات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں رسم الخط مروّج تھے۔ لیکن صدیق الرحمان قدوائی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل زیادہ تر چیزیں فارسی یعنی آج کے اردو رسم الخط میں موجود تھیں۔
‘علی گڑھ تحریک میں سماجی اصلاح کا پہلو بہت کم تھا’
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انگریزی زبان کے ریٹائرڈ پروفیسر انیس الرحمان نے ایک پروگرام کے دوران کہا کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل دیوناگری رسم الخط میں پانچ چھ سے زیادہ کتابیں دستیاب نہیں تھیں۔
جبکہ اس کالج سے مختلف مضامین میں ایک سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے بیشتر کتابیں اگرچہ اب قابل قدر نہیں لیکن اردو اور ہندی یا دوسری زبانوں میں چند ابتدائی کتابیں ایسی شائع ہوئیں جو قابل ذکر ہیں۔ یہاں سے ہی ہندوستانی زبانوں میں جدید نثر کی بنیاد پڑتی ہے۔
فورٹ ولیم
انڈیا میں شاعری اور مرصع اور مقفی نثر تو موجود تھی لیکن سہل اور رواں زبان میں نثر کی داغ بیل یہیں پڑی جو سنہ 1825 میں دلی کالج کے قیام کے بعد مزید پھلی پھولی اور سرسید کی تحریک کے آتے آتے اپنے شباب پر پہنچ گئی۔
فورٹ ولیم سے شائع ہونے والی کتابوں میں ‘قصہ چہار درویش’ کو میر امن نے سلیس ٹکسالی یعنی دہلوی زبان میں لکھا جو کہ ‘باغ وبہار’ کے نام سے آج بھی سکول اور کالجوں کے نصاب میں شامل ہے۔
میر شیر علی افسوس کی ‘آرائش محفل’ ایک ہندوستانی شاہی خاندان کی کہانی ہے نہ کہ حاتم طائی کی۔ اسی طرح انھوں نے سعدی کی تصنیف گلستان کا ترجمہ ‘باغ اردو’ کے نام سے کیا۔
میر امن کی اخلاقیات پر تصنیف کردہ کتاب ‘اخلاق محسنی’ اور غلام اشرف کی ‘اخلاق النبی’ اہمیت کی حامل ہیں۔ شاکر علی نے داستان الف لیلیٰ رقم کی جبکہ مولوی امانت اللہ کی کتاب ‘ہدایۃّ الاسلام’ قابل ذکر ہیں۔
خلیل علی خان کی ‘داستان امیر حمزہ’ اور حیدر بخش حیدری کی ‘آرائش محفل’ آج بھی بہت سے اداروں میں مکمل یا جزوی طور پر شامل نصاب نظر آتی ہیں۔
اسی طرح وہاں دیوناگری میں للو لال کی تصنیف پریم ساگر اور مظہر علی خان کی بیتال پچیسی بھی سامنے آئی۔
فورٹ ولیم سے کس کا فائدہ؟
اس سلسلے میں ناقدین کی رائے منقسم ہے لیکن سب ایک بات پر متفق ہیں کہ کالج تو تھوڑے ہی عرصے قائم رہا یعنی ابتدائی پانچ چھ سال اس کے عروج کا زمانہ رہا جب تک ویلزلی انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل رہے یا پھر جب تک گلکرسٹ وہاں رہے۔
واضح رہے کہ یہ دونوں سنہ 1805 میں کالج سے رخصت ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ گلکرسٹ کبھی بھی کالج کے پرنسپل نہیں تھے بلکہ ہندوستانی زبانوں کے شعبے کے نگراں تھے۔
صدیق رحمان قدوائی کا کہنا ہے کہ کلکتہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ چمک دمک والا شہر تھا چنانچہ وہاں سے آنے والے نوخیز طلبہ یہاں کی چمک دمک میں کھو گئے اور انھوں نے بہت حد تک ہندوستان کی تہذیب کو قبول کرنا شروع کر دیا اور اسی زمانے میں سب زیادہ تہذیبی اختلاط و ارتباط سامنے آیا۔ اس کے علاوہ فورٹ ولیم سے جو چیز سامنے آئی وہ آج تک ہمارا اثاثہ ہے۔
بہر حال بہت سے ناقدین وہاں برتے جانے والے تعصبات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی ہندوستانی کو وہاں پروفیسر نہیں بنایا گیا بلکہ سارے اساتذہ انگریز یا یورپی تھے۔
ہندوستانیوں کے لیے منشی کا عہدہ تھا جو کئی حصوں میں تقسیم تھا۔ انگریزوں کو سب سے زیادہ 1600 روپے ماہانہ ملتے تھے اور سب سے کم ایک ہزار روپے جبکہ منشیوں کے سب سے نچلے درجے کو 40 روپے، اس سے اعلیٰ کو 100 روپے اور میر منشی کو 200 روپے ملتے تھے۔
کالج کا زوال اور خاتمہ
کالج کی مخالفت انگلینڈ میں ہی زیادہ ہو رہی تھی چنانچہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ضرورت کے پیش نظر انگلینڈ میں ہی ہیلی بیری کالج سنہ 1806 میں قائم کیا گیا جو آج تک اپنی خدمات انجام دے رہا ہے لیکن فورٹ ولیم کا سورج بہت جلد غروب ہو گیا۔
گلگرسٹ اور لارڈ ویلزلی کے بعد اس کے بجٹ میں خاطر خواہ کمی کر دی گئی۔ بلکہ سیتانشو کمار کا تو کہنا ہے کہ کالج کے قیام کے دو سال بعد سنہ 1802 میں ہی اسے بند کرنے کا حکم سنا دیا گیا تھا لیکن ویلزلی نے اس پر عمل در آمد نہیں کیا اور یہ چلتا رہا۔
ان کے مطابق اس کی دمک اس وقت کم پڑگئی جب گلکرسٹ بھی وہاں سے رخصت ہو گئے۔
سنہ 1813 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک چارٹر آیا جس میں ہندوستان میں تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے ایک لاکھ کی گرانٹ منظور کی گئی۔ انگریزوں کے زیر نگیں جو خطہ تھا اس کے لیے یہ رقم بہت زیادہ نہیں تھی بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو فورٹ ولیم کالج میں جتنے اساتذہ اور مترجمین تھے یہ ان کے لیے بھی ناکافی تھی۔
اس کے بعد کالج بجٹ کی کمی کا شکار ہو گیا اور پھر یہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بند کر دیا گیا لیکن اس کا انجام پوری طرح سنہ 19ویں صدی کے وسط میں آیا۔
واضح رہے کہ سنہ 1837 میں لارڈ میکالے کی نئی تعلیمی پالیسی آئی جس نے انگریزوں کو ہندوستان کی زبان سکھانے کے بجائے ہندوستانیوں کو انگریزی زبان اور تہذیب و تمدن سکھانے کا بیڑا اٹھایا اور اس طرح کالج کا جواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
اس سے پہلے برٹش پارلیمان میں اپنے خطاب کو ختم کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ‘فی الحال ہم اتنا ضرور کریں کہ ایسا طبقہ پیدا کریں جو ہمارے اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان ترجمان کا کام کر سکے جو اپنے رنگ و نسل میں تو ہندوستانی ہوں لیکن اپنے مزاج، اپنے خیال اور اپنے اخلاق اور دانشمندی میں انگریز ہوں۔’