دلیپ کمار-ایک عہد کا خاتمہ

0

شہنشاہ جذبات کا لقب پانے والے ٹریجڈی کنگ، لیجینڈری اداکار اور ہندوستانی سنیما کے اولین سپراسٹار دلیپ کمار کا98سال کی عمر میں بدھ کی صبح انتقال ہوگیااوراسی شام وہ عروس البلاد ممبئی میں جوہوکے سانتاکروز قبرستان میں آسودہ خاک ہوگئے۔دلیپ کمار کے انتقال سے صرف ہندوستانی سنیما ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ان کے آخری سفر میں فلمی اور سیاسی شخصیات کا ایک جم غفیر تھا جس نے پرنم آنکھوں سے انہیں سپرد خاک کیا۔ دلیپ کمار کے نام سے مشہوریوسف خان1922کو پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے اور ان کا آبائی گھر آج بھی پشاور میں موجود ہے جسے وہاں کی حکومت نے قومی ورثہ قرار دیا اور اسے عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔دلیپ کمارکو ہندوستانی فلموں کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔کم و بیش 50 برسوں پر محیط اپنے کریئر میں انہوں نے صرف 65فلموں میں کام کیا اور تقریباً ہر کردار کو لازوال کردیا۔ان کی مشہور فلموں میں دیوداس، سنگ دل، امر، آن، انداز، نیادور، کرما اور مغل اعظم شامل ہیں۔ دلیپ کمار 1940 سے 1960 کی دہائی میں پردہ سیمیں کے شہنشاہ رہے اور انہیں ہندوستانی سنیماکا پہلا سپر اسٹار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ دلیپ کمار فلم ’داغ‘ کیلئے فلم فیئر کے بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتنے والے پہلے اداکار ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل سات بار یہ ایوارڈ جیتا۔1998میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہری ایوارڈ ’ نشان امتیاز‘ سے بھی نوازاگیا۔ان کا یہ ایوارڈ قبول کرنا بعض شدت پسند عناصر کو پسند نہیں آیا اور اس کے خلاف احتجاج اور ہنگاموں کا بھی ایک دور چلا۔
فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار صرف ایک اداکار ہی نہیں بلکہ ثقہ ،نفیس اور نستعلیق انسان تھے۔ زندگی کو برتنے کا اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ، چیزوں کو سمجھنے کا ان کا اپنا پیمانہ اور زاویہ نظر تھا۔آزادی کے بعد ہندوستان کی تیزی سے بدلنے والی صورتحال سے وہ آزردہ بھی رہتے تھے۔ اپنے انٹرویوزمیں انہوںنے کئی بار اس کا ذکر بھی کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ آج ملک ایک اہم موڑ پرکھڑا ہے جہاں اس کیلئے مناسب اوردرست رہنمائی ناگزیر ہے اور یہ رہنمائی سیاست سے ہی ہوسکتی ہے۔ ان کے نزدیک سیاست کسی مخصوص طبقہ کی جاگیر نہیں تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس میں ہر طبقہ کے افراد کو شامل ہونا چاہیے۔ سیاست کو وہ انسا ن کی سماجی اور معاشی زندگی کا ایک لازمی پہلو گردانتے تھے۔لیکن بوجوہ انہیں سیاست سے کوئی ذاتی دلچسپی نہیں تھی۔
ہندوستانی تہذیب وثقافت کی بدلتی رت کے حوالے سے بھی ان کی ایک مستحکم رائے تھی، ان کا کہناتھا کہ ہم نے مغربی تہذیب کوآنکھ بند کر کے قبول کر لیاہے جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے، ان کی کچھ اچھی چیزوں کو لینے کیلئے ہم اپنی کئی ا چھی چیزوں سے دست کش ہوگئے ہیں۔ہمارے پاس تہذیب کا حسن اور خلوص تھا اسے ہم نے فراموش کردیاہے۔مغرب سے مغلوب ہوکر ہم نے اپنا ورثہ تباہ کرلیا ہے، آج ہمارا خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔خاندان معاشرے کی ایک اہم اکائی ہوتا ہے، اس کے بغیر کسی رشتے ناطے، خلوص و محبت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔خاندان کا یہ ادارہ ہی جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو پھر معاشرہ کو بچاپانا مشکل ہوجاتا ہے۔
1940 کی دہائی میں اپنے والد سے جھگڑے کے بعد یوسف خان اپنا گھر چھوڑ کر پونے چلے گئے۔ آرمی کلب میں سینڈوچ اسٹال لگانے سے لے کر دلیپ کمار بننے اور داداصاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے تک انہوںنے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔یوسف خان سے دلیپ کمار بننے کا ان کا واقعہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ 1943میں وہ پونے سے لوٹ کر بمبئی آئے اور وہاں ان کی ملاقات دیویکا رانی سے ہوئی جنہوں نے یوسف خان کو بمبئی ٹاکیز میں 1250 روپے تنخواہ پر نوکری دی۔ ابتدا میں یوسف خان بمبئی ٹاکیز میں کہانی لکھنے اور اسکرپٹ کی اصلاح کرنے میں مدد کرتے تھے۔ یہیں اشوک کمار اور دیگراداکاروں سے ان کی ہونے والی ملاقات دوستی میں بدل گئی اور ان ہی کے اصرار پر یوسف خان نے اداکاری بھی شروع کردی۔ کہاجاتا ہے کہ فلم اوران سے متعلق لوگوں کے بارے میں یوسف خان کے والد کی رائے اچھی نہیں تھی اور وہ اداکاروںکانوٹنکی والاکہہ کر مضحکہ اڑایاکرتے تھے اس لیے یوسف خان نے اپنا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بمبئی ٹاکیز میں کام کرنے والے نریندر شرما جو بعد میں ہندی کے ایک بڑے شاعر ہوئے، انہوںنے تین نام تجویزکئے جہانگیر، واسودیو اور دلیپ کمار۔تاہم یوسف خان نے اپنا نیا نام دلیپ کمار کے طور پر منتخب کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پورے کریئر میں دلیپ کمار نے صرف ایک بار کوئی مسلم کردار ادا کیا اور وہ بھی کے آصف کی ’مغل اعظم‘ میں شہزادہ سلیم کا کردارہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS