کیا اسلام میں جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان بنایا جاسکتا ہے؟

0
image:https://react.etvbharat.com

مولانا سید ارشد مدنی
(صدرجمعیۃ علماء ہند)
آج کل سوشل میڈیا اور اخبارات میں بھی بڑے زورشور سے بزور وزبردستی مسلمان بنائے جانے کی خبریں چل رہی ہیں، شور مچانے والے شور مچارہے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس زمانہ میں کیا ہندوستان میں کسی کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ ہندو کو بزور وزبردستی مسلمان بنائے، اور کیا زبردستی مسلمان بنانے پر وہ مسلمان بھی بن جائے گا، مسلمان بننا بنیادی طور پر دل سے ایک اللہ کو ماننے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول ماننے پر ہے، زبان سے کلمہ توحید پڑھ لینے یا نماز ادا کرلینے سے ،اگر دل توحید ورسالت کو نہیں مانتا تو آدمی مسلمان نہیں ہو جاتا جبکہ یہ بات ظاہر ہے کہ زبردستی کلمۂ توحید زبان سے کہلوائے تو جا سکتے ہیں لیکن دل سے منوائے نہیں جا سکتے، سورۃ نمبر 16 آیت نمبر106 میں قرآن شریف کے پیش کردہ اصول کے مطابق اگر بزور وزبردستی کسی مسلمان سے کلمات کفر زبان سے کہلوائے جائیں، جبکہ اس کا دل اسلام پر مطمئن ہے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا تو اسی طرح اگر کسی غیر مسلم سے کلمات اسلام زبردستی کہلوائے جائیں، جب کہ وہ دل سے اسلام کے اصول کو نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہو جائے گا لیکن اس زمانہ میں پڑھے لکھے لوگ بھی جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ نہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر ہیں اور نہ وہ اسلام کے الف، ب سے واقف ہیں،بلکہ میں اگر کہوں کہ اسلام نے مسلمان کو یہ مزاج ہی نہیں دیا کہ وہ غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنایا کریں تو میں حق بجانب ہوں گا،کیونکہ اگر یہ بات ہوتی تو وہ پچاسوں لاکھ ہندو جو سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں میں رہ رہے ہیں مسلمان بنالئے جاتے لیکن ہندوستان کی فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو بھی مسلم ملکوں سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہاں روٹی روزی کمانے والے ہندوؤں کو بے سہارا ہونے کی وجہ سے زبردستی مسلمان بنایا جاتا ہے تو پھر سو مرتبہ یہ بات سوچنی چاہئے کہ جو کام مسلمان مسلم ملکوں میں بے سہارا غیر مسلم لوگوں کے ساتھ نہیں کرتے وہ ہندوستان میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کیسے کریں گے،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے فرقہ پرست ذہنیت والے بے خبر اور انجان لوگوں کو مسلمان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں وہ مزا آتا ہے جو کسی دوسری چیز میں نہیں آتا۔
میں مولانا جہانگیر صاحب کو تو نہیں جانتا، لیکن عمر گوتم صاحب کو جانتا ہوں وہ انتہائی شریف، پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ انھوں نے سمجھ بوجھ کر اور اسلامی تعلیمات کو پڑھ کر اسلام کو قبول کیا ہے، ان سے ایک فیصد بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایسی بیکار وبے فائدہ کوئی حرکت کریں گے، جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلنے والانہیں ہے … ہاں کوئی ایسا شخص جو مسلمان ہوچکا ہے اگر ہندوستان کے قانون کے مطابق تبدیلی مذہب کے کاغذات بھرنے کے لئے آتا ہے تو چونکہ وہ خود اس مرحلہ سے گزرے ہوئے تھے، وہ اس کی مدد کر دیا کرتے تھے اور اس وقت اس معاملہ میں کوئی سختی بھی نہیں تھی، اس جگہ مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی وہ بنیادی تعلیم جو کسی اسلامی ملک میں بسنے والے غیر مسلموں کے لئے ہے بتاتا چلوں تو شاید فرقہ پرستی کی آگ میں جلے ہوئے لوگوں کے لئے مفید ہو سکے اور ان کی بند آنکھیں کھل سکیں، اور خود پڑھا لکھا مسلمان بھی اپنے دین کے بارے میں ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکے۔
دنیا جانتی ہے کہ اسلام کی اصل تعلیم وہی ہے، جس کو ’’قرآن‘‘یا اللہ کے رسول حضرت ’’محمد‘‘صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے ہیں،چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان غیر مسلموں کے بارے میں جو کسی اسلامی ملک میں رہتے ہیں فرما رہے ہیں :
(1) اگر کوئی دشمن اسلامی حکومت میں ان پر حملہ کرے گا تو ان غیر مسلموں کی طرف سے لڑا جائے گا۔
(2) کسی اسلامی ملک میں غیر مسلموں کو ان کے مذہب سے ہٹایا نہیں جائے گا، اللہ کے رسول ؐ کی مبارک زبان سے نکلنے والے الفاظ ’’لا یُفْتَنُوْا عَنْ دِیْنِہِمْ‘‘ ہیں۔
(3) غیر مسلموں کی جان اسلامی ملک میں محفوظ رہے گی۔
(4) غیر مسلموں کا مال بھی اسلامی حکومت میں محفوظ رہے گا۔
(5) ان کے قافلے یعنی تجارت بھی محفوظ رہے گی۔
(6) ان کی زمین بھی محفوظ رہیں گی۔
(7) تمام وہ چیزیں جو پہلے سے ان کے قبضہ میں تھیں، بحال رہیں گی۔
(8) ان کے پادری ’رہبان‘ پجاری ’مہنت‘ اپنے عہدوں سے بر طرف نہیں کئے جائیں گے۔
(9) ان کی پیداوار میں سے دسواں حصہ نہیں لیا جائے گا۔
(10) ان پر فوج کشی نہ کی جائے گی۔
(11) ان کا کوئی حق، جو ان کو پہلے سے حاصل تھا، چھینا نہیں جائے گا۔
(12) جو لوگ اس وقت نہیں ہیں ،یہ سب احکام ان کو بھی شامل ہوں گے۔
(بلا ذری ؒ کی ’فتوح البلدان‘ اور امام ابو یوسفؒ کی ’کتاب الخراج‘ دیکھو۔)
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی یہ اسلامی تعلیمات اسلامی ملک میں ہیں تو کسی غیر اسلامی ملک میں بزور وزبردستی کسی غیر مسلم کو مسلمان کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ اور بغیر دل سے مانے ہوئے وہ مسلمان کیسے بن سکتا ہے؟، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ؐکے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے قریب جو وصیتیں کی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ ’’غیر مذہب والے جو لوگ ہمارے ملک میں رہتے ہیں وہ خدا اور رسولؐ کی ذمہ داری میں ہیں، مسلمانوں کو ان کی طرف سے ان کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا چاہئے۔(فتوح البلدان)
میں یہ سب باتیں اس لئے پیش کررہا ہوں کہ ’’عمرگوتم‘‘صاحب جیسے پڑھے لکھے اور سنجیدہ آدمی پر الزام ایک بے حقیقت تہمت ہے، اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہمیں اس کا تجربہ ہے کہ مسلمان جو انوں کو پکڑا جاتا ہے، ان کو ملک کا باغی بنا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ ان کو ملک سے بغاوت کا سرغنہ بتایا جاتا ہے اور عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، بلکہ پھانسی کی سزا دی جاتی ہے اور اوپر کی عدالت سے وہ باعزت بری کر دئے جاتے ہیں، جبکہ جیل میں ان جوانوں کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ہم عدالتوں میں بار بار جاتے ہیں کہ تحقیق کرنے والوں کے خلاف سرزنش کے احکامات جاری ہونے چاہئیں لیکن یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ پولیس اور حکومت کی ایجنسیوں کا’’مورل‘‘گر جائے گا، مگر دنیا کہتی ہے کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے اور نہ اس کی لاٹھی میں آواز ہے۔چونکہ اس طرح کے تمام معاملات میں درحقیقت اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے اور اپنی جہالت سے اس کو دہشت گردی کا مذہب کہا جاتا ہے، اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قوم کے طور پر ثابت کیا جارہا ہے۔
اس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ حضرت محمدؐ کی وہ ہدایات جو آپ نے اسلامی ملک میں بسنے والے غیر مسلموں کے بارے میں دی ہیں لوگوں کے سامنے پیش کر دوں تاکہ اس کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں آپ آج کی صورتحال میں اسلام مذہب کے خلاف پروپیگنڈے اور پڑھے لکھے مسلمانوں پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں اور یہ جان سکیں کہ چند مسلم جوانوں کی زندگی خراب تو کی جاسکتی ہے، لیکن اس میں ملک یا انسانیت کی کوئی قابل قدر خدمت نہیں کی جاسکتی، جبکہ آج دنیا اس کی محتاج ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS