معیشت کو ابھارنے کا چیلنج

0

جینتی لال بھنڈاری

وبا کی دوسری لہر سے بدحال معیشت کو راحت دینے کے لیے حکومت نے حال میں 6لاکھ 28ہزار روپے کے معاشی مراعات پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت صحت اور سیاحت کے شعبوں و چھوٹے قرض داروں کے لیے قرض گارنٹی اسکیم کے علاوہ ایمرجنسی قرض سہولت اسکیم(ای سی ایل جی ایس) کی رقم 3لاکھ کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے4لاکھ کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ حکومت نے آتم نربھراسکیم کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ دوسری لہر کے سبب معیشت میں گراوٹ کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے ایک اور راحت پیکیج کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی آمدنی میں زبردست کمی کے سبب قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کی بچت ختم ہوگئی ہے اور وہ قرض لے کر زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ وبا کی وجہ سے بگڑے معاشی حالات سے بینکوں کا این پی اے بڑھ گیا ہے۔ خوردہ اثاثے اور چھوٹی صنعتوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ نجی سرمایہ کاری کی رفتار بھی سست ہوگئی ہے۔ کل کھپت، کاروبار، ہوٹل، ٹرانسپورٹیشن، کمیونی کیشنز اور سروسز پر بڑا اثر نظر آیا ہے۔
غور طلب ہے کہ بھارتیہ ریزرو بینک(آر بی آئی) نے مالی سال2021-22کے لیے اپنے پہلے سے مقرر ساڑھے 10فیصد کے معاشی اضافہ کے اندازہ کو کم کرکے ساڑھے9فیصد کردیا ہے۔ بھارتیہ اسٹیٹ بینک(ایس بی آئی) نے بھی معاشی اضافہ کے اپنے اندازہ کو کم کرکے 7.9فیصد کردیا ہے، جو پہلے 10.4فیصد تھا۔ وزارت مالیات کی رپورٹ کے مطابق ٹیکہ کاری میں جنگی پیمانہ پر تیزی لانے سے وبا کے برے اثرات سے نکلنے میں مدد ملے گی، ساتھ ہی ڈیمانڈ، کھپت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے سے معیشت میں جان آئے گی۔

معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ٹیکہ کاری کی کامیابی ضروری ہے۔ ۔۔۔ٹیکہ کاری کے معاملہ میں ہم ابھی کئی ممالک سے کافی پیچھے ہیں۔ برازیل نے اپنی آبادی کے چالیس فیصد حصہ کو ٹیکہ لگادیا ہے۔ چین میں آبادی کے تقریباً 90فیصد اور امریکہ میں تقریباً 95فیصد لوگوں کی ٹیکہ کاری ہوچکی ہے۔ اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ گزشتہ برس وبا کی زد میں آئے کئی مغربی ممالک نے اپنی صنعتوں-کاروبار کو معمول پر لانے اور معیشت کو رفتار دینے میں ٹیکہ کاری پر خرچ کو بہتر متبادل تسلیم کیا ہے۔ ایسے میں ٹیکہ کاری کی رفتار بڑھا کر ہی معیشت کو رفتار دی جاسکے گی۔

گلوبل فائنانشیل آرگنائزیشنز و کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر نظر ڈالیں تو ان رپورٹوں میں بھی گروتھ ریٹ میں کمی آنے کے واضح اشارے ہیں۔ موڈیز انویسٹرس سروس نے ہندوستان کی شرح نمو کے اندازہ کو کم کرکے 9.6فیصد کردیا ہے جو پہلے 13.9فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق معاشی اشارے بتارہے ہیں کہ دوسری لہر نے اپریل اور مئی میں ہندوستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دوسری لہر کے سبب 2021کی شرح نمو کے اندازہ کو لے کر غیریقنی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کووڈ ٹیکہ کاری کی کم شرح کے سلسلہ میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے تیزی سے ٹیکہ کاری کرکے معاشی نقصان کو بچایا جاسکتا ہے۔ یو بی ایس سکیورٹیز انڈیا نے اپنی رپورٹ میں 2021-22کی جون سہ ماہی میں معیشت میں 12فیصد کی کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 2020-21کی جون سہ ماہی میں معیشت میں 23.9فیصد کی گراوٹ آئی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال میں معیشت میں گراوٹ کے بعد تیزرفتار سے اضافہ مشکل ہوگا، جیسا کہ گزشتہ مرتبہ قومی پیمانہ پر لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد دیکھا گیا تھا۔ اس کا سبب اس مرتبہ صارفین کا تاثر بے حد کمزور ہوا ہے۔ لوگ گزشتہ سال کے مقابلہ وبا کی دوسری لہر کے اثر کو دیکھ کر زیادہ فکرمند ہیں۔
وبا کی پہلی لہر سے ہوئی زبردست نقصان سے معیشت پوری طرح ابھر نہیں پائی ہے۔ اب دوسری لہر کے نقصانات نظر آنے لگے ہیں۔ ملک کی زیادہ تر صنعتیں-کاروبار رواں مالی سال کے دوران اپنی فروخت میں 2نمبروں کے اضافہ سے متعلق پرجوش تھے۔ لیکن اب صورت حال ویسی نہیں رہ گئی ہے۔ دوسری لہر نے ان امکانات کو تقریباً ختم کردیا ہے جن میں کہا جارہا تھا کہ گزشتہ مالی سال کی معاشی مایوسیاں رواں سال میں معاشی امیدوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔ چوں کہ اس مرتبہ دوسری لہر کے دوران پہلے سال جیسا ملک گیر سخت لاک ڈاؤن نہیں لگایا گیا، اس لیے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر زیادہ برا اثر نہیں پڑا۔ آئی ایچ ایس مارکیٹ انڈیا مینوفیکچرنگ پرچیزنگ منیجرس انڈیکس(پی ایم آئی) مئی2021میں کم ہوکر 50.8 پر آگیا، جو اپریل میں 55.5نمبر پر تھا۔ اس دوران کمپنیوں کے پاس نیا کام اور پیداوار گزشتہ 10ماہ میں سب سے کم رہی۔ جب کہ گزشتہ سال مئی میں مینوفیکچرنگ پی ایم آئی کم ہوکر 30.8نمبر رہ گیا تھا۔ اسی طرح آئی ایچ ایس انڈیا سروسز پرچیزنگ منیجرس انڈیکس(پی ایم آئی) مئی میں کم ہوکر 46.4پر آگیا جو اپریل میں 54تھا۔ ہندوستان کے سروس سیکٹر میں سرگرمیاں 8ماہ میں پہلی مرتبہ محدود ہوئی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں و آر بی آئی نے وبا کے دوسری لہر کے دوران معیشت کے مختلف شعبوں کی مدد کے لیے کچھ قدم ضرور آگے بڑھائے ہیں۔ حال میں اعلان کیے گئے راحت پیکیج کے علاوہ گزشتہ دو ماہ میں معاشی-معاشرتی راحت کی اسکیمیں بھی شروع کی ہیں۔ مئی 2021سے پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا شروع کی گئی۔ اس سے 80کروڑ لوگوں کو فائدہ پہنچنے کی بات کہی جارہی ہے۔ پردھان منتری کلیان انّ یوجنا پر 26ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے۔ یہ بھی اہم ہے کہ آر بی آئی نے ذاتی قرض داروں اور چھوٹے کاروباروں کے لیے قرض کے ری اسٹرکچرنگ کی جو سہولت بڑھائی ہے اور قرض میں توسیع کی ہے، اس سے چھوٹی صنعتوں اور کاروباروں کو فائدہ ہوگا۔ اس نئی سہولت کے تحت 50کروڑ روپے تک کے بقائے والے وہ قرض دار اپنا قرض دو سال کے لیے ری اسٹرکچرنگ کراسکتے ہیں، جنہوں نے پہلے چھوٹ کی مدت (موریٹوریم) یا ری اسٹرکچرنگ کا فائدہ نہیں لیا ہے۔ صحت کے شعبہ کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آر بی آئی نے 50ہزار کروڑ روپے کی نقدی کا انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ سینٹرل بینک 4جون کو سیاحت، ہوٹل اور ایوی ایشن جیسے شعبوں کے لیے 15ہزار کروڑ روپے کی نقدی حمایت کا اعلان کرچکا ہے۔
معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ٹیکہ کاری کی کامیابی ضروری ہے۔ مرکز کی سب کے لیے مفت ٹیکہ کاری پالیسی کے تحت اب 18برس سے زیادہ عمر کے سبھی لوگوں کے لیے مفت ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ لیکن اس برس دسمبر تک سب کے لیے ٹیکہ کاری کا ہدف پورا کرنے کے لیے روزانہ تقریباً 90لاکھ ٹیکے لگانے ہوں گے۔ اب تک آبادی کے پانچویں حصہ کو ٹیکہ لگ چکا ہے۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں صرف ایک ہی خوراک لگی ہے۔ ٹیکہ کاری کے معاملہ میں ہم ابھی کئی ممالک سے کافی پیچھے ہیں۔ برازیل نے اپنی آبادی کے چالیس فیصد حصہ کو ٹیکہ لگادیا ہے۔ چین میں آبادی کے تقریباً 90فیصد اور امریکہ میں تقریباً 95فیصد لوگوں کی ٹیکہ کاری ہوچکی ہے۔ اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ گزشتہ برس وبا کی زد میں آئے کئی مغربی ممالک نے اپنی صنعتوں-کاروبار کو معمول پر لانے اور معیشت کو رفتار دینے میں ٹیکہ کاری پر خرچ کو بہتر متبادل تسلیم کیا ہے۔ ایسے میں ٹیکہ کاری کی رفتار بڑھا کر ہی معیشت کو رفتار دی جاسکے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ راحت پیکیج کے علاوہ نئی ڈیمانڈ کی عمل آوری کے لیے لوگوں کی قوت خرید بڑھانے کے بھی اقدامات کرے۔ جب تک لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوگا، تب تک وہ کچھ بھی خرید پانے کی حالت میں بھی نہیں آپائیں گے اور اس کا اثر ڈیمانڈ اور پیداوار کے پہیہ پر نظر آتا رہے گا۔ اس لیے معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے متوسط طبقہ پر توجہ مرکوز کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS