سکھ لڑکیوں کو جبراً شادی کیلئے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیاگیا

0
thequint

سری نگر(صریر خالد/ایس این بی) :کشمیر کے مْسلم اکثریتی سماج میں سکھ یا ہندو لڑکوں کے اکثریتی سماج کی لڑکیوں کے ساتھ ’’پیار کی شادی‘‘ کے واقعات بھلے ہی کوئی معمولی خبر بھی نہ بنتے ہوں تاہم دو سکھ لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں کے ساتھ مرضی کی شادی کے واقعات پر آج کل بڑا شوروغل مچا ہوا ہے۔ایک غیر مقامی سکھ لیڈر کا الزام ہے کہ کشمیر میں ان کی لڑکیوں کو ’’بندوق کی نوک پر اغوا کرکے‘‘ زبردستی مسلمان بنایا جارہا ہے، تاہم دونوں لڑکیوں نے سامنے آکر اس الزام کی نہ صرف تردید کی ہے، بلکہ مرضی کی شادی کرکے از خود اکثریتی سماج میں آملنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
دہلی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر من جندر سنگھ سرسا نے پیر کے روز دعویٰ کیا کہ3 سکھ لڑکیوں کو ’’بندوق کی نوک پر ‘‘ اغوا کرکے زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور پھر انہیں ادھیڑ عمر کے لوگوں کے ساتھ بیاہا گیا ہے۔اتنا ہی نہیں، بلکہ سرسا نے تو عدالت پر بھی انگلی اٹھائی اور الزام لگایا کہ ایک جج نے ’’جانبداری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’زبردستی قبول اسلام‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے اور شادی کو درست ٹھہرایا ہے۔سرسا نے کشمیری مسلمانوں کو ،اشارتاََ، احسان فراموشی کا طعنہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ کس طرح 2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران سکھ رضاکار تنظیم خالصہ ایڈ نے یہاں کے لوگوں کی مدد کی اور پھر دفعہ 370کی تنسیخ کے وقت پیدا شدہ صورتحال کے دوران کتنی ہی کشمیری بیٹیوں کو مختلف ریاستوں وغیرہ سے ہوائی جہازوں کے ذریعہ گھر پہنچایا۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں نے احسان مندی کے بدلے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھوں کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیلا ہے۔
کشمیری سماج میں موجود انسانی اقدار اور اقلیتوں کے تئیں کشمیری مسلمانوں کے رویہ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والے کسی شخص نے سرسا کی باتوں پر کان تو دھرا نہیں، لیکن خود ان 2 سکھ لڑکیوں نے،جن کے بارے میں سرسا کا دعویٰ تھا، سامنے آکر نہ صرف حقیقت بیان کی، بلکہ پروپیگنڈہ کی پول بھی کھول دی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل 2 ویڈیوز میں یہ دونوں لڑکیاں ’’سکھ فرقہ‘‘ پر جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کا الزام لگاتے دیکھی جاسکتی ہیں۔ ورن پال کور،موجودہ نام خدیجہ، نے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ’’میرا نام خدیجہ ہے،3ماہ پہلے میں نے بھی کنورژن (قبول اسلام) کیا ہے،میرا سابق نام ورن پال کور تھا‘‘۔ وہ کہتی ہیں ’’تین چار دنوں سے ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے، جس میں سکھ فرقہ کے لوگ یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ہمیں بندوق کی نوک پر اغوا کیا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے‘‘۔یہ بیان غلط ہے، تاہم اس کا لبِ لْباب یہ ہے کہ ورن پال نے ’’70فیصد اسلام سے متاثر ہوکر‘‘ اور ’’30 فیصد پیار کی وجہ سے‘‘ قبول اسلام کرکے اپنے مسلمان محبوب سے شادی کی ہے اور وہ اپنے سسرال میں خوش ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے بس اپنے بنیادی اور آئینی حق کا استعمال کیا ہے‘‘۔
اسی طرح کی دوسری ویڈیو میں ’’دھن میت کور‘‘ نامی سکھ لڑکی کہتی ہیں ’’میرا مسئلہ آج کا نہیں ہے، بلکہ میں نے 2012 میں قبول اسلام کیا ہے اور پھر 2020 میں ان کا ان کے ہم جماعت مظفر کے ساتھ باضابطہ مرضی سے نکاح ہوا ہے‘‘۔ وہ مفصل ویڈیو بیان میں کہتی ہیں کہ کس طرح قبول اسلام کے بعد وہ گھر والوں کو بتاکر گھر سے گئیں اور پھر کس طرح اْنہیں گھر والے واپس لے گئے، مگر وہ واپس مرضی سے مْسلم سماج میں آگئیں۔ وہ بار بار کہتی ہیں ’’میں پڑھی لکھی ہوں اور میں نے سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا فیصلہ کیا ہے،مجھ جیسی پڑھی لکھی لڑکی کے ساتھ زور زبردستی کا تو سوال ہی نہیں ہے،مہربانی کرکے معاملے کو سیاسی یا مذہبی رنگ دے کر کشمیر میں فرقہ وارانہ بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔
اس دوران آج دہلی سے سکھ رضاکاروں کا ایک اور وفد سری نگر آپہنچا ،جس کی صدارت شرومنی اکالی دل دہلی کے صدر پرم جیت سنگھ کر رہے تھے۔
مختلف مسلم رہنماؤں اور علماء کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے دوران کشمیری مسلمانوں سے ان پر لگائے گئے الزامات کیلئے ’’معافی مانگی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس واقعہ کی اپنے طور تحقیقات کی اور پایا کہ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور ان پر کسی قسم کی زور زبردستی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری مسلمانوں اور مقامی سکھوں کا ا?پس میں بہترین بھائی چارہ ہے جسے زک پہنچنے کی اجزت نہیں دی جاسکتی ہے۔
حالانکہ کشمیر ایک مْسلم اکثریتی سماج ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں ’’پیار کے نام پر‘‘ اکثریتی طبقہ کی لڑکیاں اقلیتی فرقہ کے نوجوانوں کے دامِ محبت میں نہیں ا?تیں۔ ا?ج جب سکھوں کی جانب سے انکی لڑکیوں کے اغوا کے الزامات خبروں میں ہیں تو دوسری جانب وسطی کشمیر کے پکھرپورہ کے ایک مْسلم خاندان نے پولس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ ایک غیر مقامی سکھ بلڈوزر ڈرائیور نے اْنکی 20سالہ بیٹی کو بھگا لیا ہے۔ رواں ماہ کی چار تاریخ کو سرینگر کے مضافات میں ہارون سعیدہ پورہ کے ایک خاندان نے پولس میں رپورٹ لکھوائی کہ پنجاب کے اروند گِل نامی سکھ ترکھان نے اْنکی بیٹی کو بھگا لیا ہے۔ اس جیسے اور بھی متعدد واقعات ہیں یہاں تک کہ چند ماہ قبل پولس نے سرینگر ہوائی اڈے پر شمالی کشمیر کی دو لڑکیوں کو ساتھ لیجاتے ہوئے ایک فوجی اہلکار کو پکڑ لیا۔ تاہم ان واقعات پر یہاں کوئی ہنگامہ ہوا ہے اور نہ ہی مسلمانوں نے کسی پر الزام لگایا بلکہ مذکورہ لڑکیوں کے کردار کو کوسنے کے سِوا کسی نے کچھ کہا نہ کسی کو کہنے دیا۔
چھانہ پورہ سرینگر میں سکھوں کی ایک کالونی ا?باد ہے۔ وہاں کے ایک بزرگ سکھ نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کو بتایا ’’ہم حیران ہے کہ دلی یا دوسری جگہ کے سکھوں کو ہماری فکر کب سے ہونے لگی،جن واقعات کا شور و غل ہے وہ افسوسناک تو ہیں لیکن یہ اِکا دْکا واقعات ہیں جنکا کسی مذہب وغیرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے،مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ایک بڑی سازش کا حصہ ہے، نہ جانے کو ہمارے گھر جلا کر سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش میں ہیں حالانکہ ہم اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ا?رہے ہیں‘‘۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS