عباس دھالیوال
اس سال جنوری میں جہاں امریکہ میں جو بائیڈن کی زیر قیادت نئی حکومت بر سر اقتدار آئی تو وہیں ابھی حال ہی میں ایران میں منعقد ہونے والے الیکشن میں جج ابراہیم رئیسی کی صدارت میں ملک میں نئی حکومت تشکیل ہونے جا رہی ہے۔ ایسے میں قوی امکان تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات نئے سرے سے استوار ہوںگے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی لیکن گزشتہ دنوں سے دونوں ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے جس طرح کے بیانات آرہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ابھی دلی دور ہی نہیں بلکہ بہت دور ہے ۔
ایران میں گزشتہ دنوں منعقد ہوئے صدارتی انتخابات میں جج ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس سے قبل وہ ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت گیر خیالات کے مالک ہیں۔ 60 برس کے رئیسی اپنے کریئر کے دوران ایک لمبی مدت تک بطور پراسیکیوٹر فرائض انجام دیتے رہے ہیں جبکہ انہیں 2019 میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے 2017 میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے فرق سے ہار گئے تھے۔ اگر رئیسی کے سلسلے میں بات کریں تو امریکہ نے پہلے ہی ان پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، سیاسی قیدیوں کو پھانسی دلانے میں اہم کردار ادا کرنے کے بھی ان پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رہبر اعلیٰ کے بعد ایران میں صدر کا عہدہ سب سے بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ ایران میں داخلی اور خارجی پالیسیوں پر صدر کا گہرا اثر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود سپریم لیڈر یعنی سید علی حسینی خامنہ ای کی بات ہر ریاستی معاملے پر حرف آخر ہوتی ہے۔
اگر رئیسی کے سلسلے میں بات کریں تو امریکہ نے پہلے ہی ان پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، سیاسی قیدیوں کو پھانسی دلانے میں اہم کردار ادا کرنے کے بھی ان پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رہبر اعلیٰ کے بعد ایران میں صدر کا عہدہ سب سے بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ ایران میں داخلی اور خارجی پالیسیوں پر صدر کا گہرا اثر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود سپریم لیڈر یعنی سید علی حسینی خامنہ ای کی بات ہر ریاستی معاملے پر حرف آخر ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ابراہیم رئیسی نے مارچ 2016 میں ایران کے سب سے امیر اور اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاؤنڈیشن (آستان قدس رضوی) کا انتظام سنبھالا تھا۔ یہ ادارہ مشہد میں امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس ادارے کا بجٹ اربوں ڈالر کا ہوتا ہے اور یہ فاؤنڈیشن ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں ہے اور تیل اور گیس کمپنیوں اور کارخانوں میں آدھی اراضی کا مالک ہے۔ ایران میں متعدد لوگوں کا خیال ہے کہ اس منصب پر رئیسی کی تقرری کا مطلب یہ تھا کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای انہیں آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے کے خواہشمند تھے۔
ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، تاہم متعدد ایرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر قتل میں ان کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ابراہیم رئیسی نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ اب جبکہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے 2015 کے بین الاقوامی معاہدے میں دوبارہ شرکت کی کوششیں کر رہا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی میں پابندیوں میں نرمی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور یہ مطالبہ کیا کہ امریکہ واپس آئے اور معاہدے میں کیے گئے وعدے پورے کرے۔
واشنگٹن کے خلاف خامنہ ای کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف ناانصافی پر مبنی تمام پابندیاں اٹھائے۔ ادھر جو بائیڈن کی پریس سکریٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ اس وقت ایران کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور اس ملک کے کسی بھی سطح کے لیڈر کے ساتھ ملاقات کرنے کامنصوبہ بھی نہیں ہے۔ ساکی کے مطابق، ایران کے بارے میں صدر بائیڈن کی سوچ بدستور وہی ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہی ملک کے اصل بااختیار حکمران ہیں اور وہی جوہری معاہدے پر نظر ثانی اور توسیع کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔ ساکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ رئیسی کو سب سے پہلے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا جس کے وہ ذمہ دار ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ہم ایرانی حکومت پر، قطع نظر اس کے کہ کون اقتدار میں ہے، زور دیں گے کہ وہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور تمام ایرانیوں کے انسانی حقوق ، بنیادی حقوق اور آزادیوں کے احترام کے اپنے معیار میں بہتری لائے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ اور پانچ بین الاقوامی طاقتیں تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کی نئی شرائط پر بات چیت کر رہی ہیں، رئیسی کا کہنا ہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی ملیشیا گروپوں کے لیے ایران کی مدد کے سلسلے میں کوئی بات نہیں ہو گی۔
[email protected]