انسانوں کو بانٹنے کے لیے خود انسانوں نے ہی طرح طرح کے خانے بنا رکھے ہیں۔ مذہب، نسل، خطے، زبان، ثقافت، ذات کی بنیاد پر بنے خانوں میں ان انسانوں کے لیے جینا مشکل ہوتا ہے جو صرف انسان بن کر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور ان انسانوں کے لیے بھی جدوجہد بڑھ جاتی ہے جو یہ سوچتے ہیں، انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، آزاد ہی مرتا ہے، پھر جیتے جی خانوں میں قید کیوں رہے۔ انہی انسان دوست لوگوں میں ابراہم لنکن کا شمار ہوتاہے۔ 1863 میں انہوں نے غلامی کی زندگی کاٹنے والے لاکھوں لوگوں کو آزاد کرایا تھا تو شاید ہی یہ سوچا ہوگا کہ 100 برس بعد 28 اگست، 1963کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو یہ کہنا پڑے گا، ’میرا ایک خواب ہے‘ کہ امریکہ میں بلا تفریق سبھی لوگوں کو صحیح معنوں میں انسانی حقوق حاصل ہوں، روزگار دینے میں ان کے ساتھ امتیاز نہ برتا جائے، ان کے ساتھ سلوک کرنے میں امتیاز نہ ہو مگر 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل نے یہ اشارہ دے دیا کہ انسانی فلاح کی باتیں کرنے والے امریکی لیڈر خود اپنے ملک کے انسانوں کو انصاف دلانے سے قاصر ہیں، نسلی امتیاز ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ 20 جنوری، 2009 کو براک حسین اوباما نے امریکہ کے صدر کا حلف لیا تو سمجھا یہ گیا کہ امریکیوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر اوباما کو نہیں جتایا ہے، رِی پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کو جونیئر بش کی کارکردگیوں کی سزا دی ہے مگر براک حسین اوباما نے دوسری بار 20 جنوری، 2013 میں امریکہ کے صدر کا حلف لیا تو یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ امریکہ میں نسل پرستی بے شک اپنا وجود رکھتی ہے مگر اس نے سبھی امریکیوں کو اس طرح جکڑ نہیں رکھا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں وہ سیاہ فام صدر کو دیکھ نہ سکیں۔ اس کے باوجود 25 مارچ، 2020 کو ڈیرک شووِن نے 9 منٹ، 29 سیکنڈ تک جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر سانسیں ان کے سینے میں ہی گھونٹ دیں تو امریکہ کے صدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کی مذمت بھرپور انداز میں نہیں کی تھی۔ اس ایشو پر ان کے بیانات ان لیڈروں کے بیانات جیسے تھے جو مذمت کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ متاثرہ کنبے کا تعلق کس مذہب، کس نسل یا کس ثقافت سے ہے۔ اصل میں ٹرمپ نے یہ بات نظرانداز نہیں کی تھی کہ سیاہ فام امریکیوں کی تعداد صرف 13.4 فیصد ہی ہے مگر سوا سال میں امریکہ کی عدالت نے ڈیریک شووِن کے خلاف فیصلہ سناکر یہ بتا دیا کہ ان کی نظر میں صرف یہ بات تھی کہ ایک انسان کا قتل نسلی امتیاز کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں لمبی لمبی تاریخیں نہیں دیں، یہ جاننے میں دلچسپی نہیں لی کہ اکثریتی طبقے کے لوگ اس معاملے میں کیا سوچتے ہیں، ان کے ضمیر کو کس طرح کے فیصلے سے اطمینان ہوگا، اس نے انصاف کرنے میں جلدی کی اور ایک اچھا فیصلہ سناکر بیدار ضمیر اور انصاف پسندی کا ثبوت دیا، اپنے فیصلے کو ان ججوں کے لیے مثالی بنا دیا جن کے لیے انسان صرف انسان ہے، مظلوم صرف مظلوم ہے، ملزم صرف ملزم ہے اور منصف کا کام صرف انصاف کرنا ہے، اپنے ہم مذہب، ہم نسل، ہم لسان یا ہم ثقافت کا خیال کرنا نہیں ہے۔
امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کی عدالت نے جارج فلوئیڈ کے قتل کے ملزم سابق پولیس افسر ڈیرک شووِن کو ساڑھے بائیس سال کی سزائے قید سنائی ہے۔ جج پیٹر کاہل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ڈیرک شووِن نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور جارج فلوئیڈ پر ظلم کیا۔‘ پراسیکیوٹرس شووِن کو 30 برس کی سزا دلانا چاہتے تھے مگر جج نے ساڑھے بائیس سال کی سزا دی۔ ڈیرک شووِن کو پے رول پر رہائی دو تہائی سزا کاٹنے کے بعد ہی مل سکے گی اور وہ بھی اس وقت جب اس کا رویہ اچھا ہوگا یعنی کسی بھی حال میں 15 سال اسے جیل میں گزارنا ہوگا۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ اس معاملے پر اعلیٰ عدالتوں کا رخ کیا ہوگا۔ ویسے جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید فام لوگوں نے بھی احتجاج و مظاہرہ کیا تھا اور یہ اشارہ دے دیا تھا کہ اس معاملے کو وہ انسانیت کی عینک سے دیکھتے ہیں، نسلی تعصب کی عینک سے نہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا سزا پر کہنا ہے کہ ’یہ سزا مناسب لگتی ہے۔‘جارج فلوئیڈ کے بھائی ٹیرنس کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے پوچھا کہ ’شووِن نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟‘مختلف خانوں میں انسانوں کو بانٹنے اور مختلف ناموں پر انسانوں کا قتل کر ڈالنے والوں سے آدمؑ کی کوئی بھی اولاد یہی پوچھنا چاہے گی کہ ’ انسان کے ہاتھوں انسان کا قتل کیوں؟‘ ہمارے ملک میں متعدد لوگوں کی لنچنگ کر دی گئی جبکہ ذی ہوش لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ لنچنگ ملک کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کرے گی، بدنامی کی وجہ ضرور بنے گی۔ امید یہی رکھی جانی چاہیے کہ ہمارے ملک کی عدالتیں لنچنگ کے ملزمین کو ایسی سزائیں دیں گی جو باعث اطمینان بنیں گی ان لوگوں کے لیے جن کا یقین عدالت و انصاف پر سے ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
[email protected]
قابل تقلید فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS