اِدھرمفلسی اُدھرجمع رقم میں اضافہ

0
image:newindianexpress.com

یہ ملک فراخ دل لوگوں کا ملک ہے، جذباتی لوگوں کا ملک ہے، لوگ جتنی شدت سے کسی بات پر ناراض ہوتے ہیں اتنی ہی شدت سے وہ بات برسہا برس تک یاد نہیں رکھتے۔ وہ عام دنوں میں اتنے مسئلوں سے دوچار رہتے ہیں کہ نئے مسئلوں کے آجانے پر زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ عام دنوں میں بھی علاج و معالجے کی وجہ سے سالانہ ہزاروں لوگ خط افلاس سے نیچے چلے جاتے ہیں، کیونکہ ملک میں سرکاری اسپتالوں کی کیا حالت ہے ، کتنے ہیں اور ان کے مقابلے میں پرائیویٹ اسپتالوں کی حالت کیا ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وبا کے آنے پر حالات بدلنے چاہئیں تھے۔ عالمی وبا کے آنے پر پیسے والے لوگ اپنے ملک کا خیال کریں گے، اپنے ملک کے لوگوں کا خیال کریں گے، یہ امید فطری طور پر کی جانی چاہیے مگر کورونا وائرس کی آمد پر حالات مختلف نظر آئے۔ اسپتالوں سے من چاہی رقم وصول کرنے کی خبریں آئیں، من چاہی رقم وصول کرنے کے لیے اسپتالوں نے جو حرکتیں کیں، ان کی کہانیاں الگ ہیں۔ ایسی صورت میں سوئز بینکوں میں ہندوستانیوں کے جمع ہونے والے روپیوں میں اضافے کی خبر آتی ہے تو یہ زیادہ چونکانے والی بات نہیں ہونی چاہیے مگر 2019 کے مقابلے میں 2020 میں رقم میں دگنے سے زیادہ کا اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ واقعی فکر کی بات ہونی چاہیے۔ فکر کی بات اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ اسی 2020 میں کورونا سے تحفظ کے لیے حکومت کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا، لاکھوں لوگوں کو نوکریاں گنوانی پڑیں، لاکھوں لوگ خط افلاس سے نیچے چلے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2020 میں خط افلاس کے نیچے جانے والے ہندوستان کے لوگوں کی تعداد 23 کروڑ تھی۔ تو سوال یہ ہے کہ ٹھیک اسی سال مفلسی میں اضافہ ہوا تو سوئز بینکوں میں جمع رقم میں اضافہ کیسے ہو گیا؟ کیا حکومت اس سلسلے میں تفتیش کرے گی؟ حکومت اگر چاہے تو سوئزبینکوںمیں جمع ہندوستا ن کا پیسہ ہندوستان واپس لاکر ایک مثال قائم کرسکتی ہے۔ یہ دکھا سکتی ہے کہ بلیک منی کا ذکر انتخابی موسم میں ہی نہیں چھڑتا، عام دنوں میں بھی اس کے خلاف کام ہوتا ہے۔یہ ٹھیک نہیں کہ ملک میں کروڑوں لوگ تو ایک ایک روٹی کے لیے مجبور رہیں ۔ سوئز بینکوں میں کروڑوں کی بلیک منی جمع رہے۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان واحد ملک نہیں ہے جہاں کے لوگوں کی رقم سوئز بینکوں میں جمع ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ کئی وہ ممالک ہیں جن کے لوگوں کی زیادہ رقم سوئز بینکوں میں جمع ہے لیکن ہر آدمی پہلے اپنے ملک کے بارے میں سوچتا ہے، پھر دنیا کے بارے میں۔ وطن عزیز کے لوگوں کے بلیک منی کو سنجیدگی سے لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کے 46.2 فیصدلوگ روزانہ 3.20 ڈالر بھی نہیں کما پاتے ہیں۔ ایک ڈالر کی قیمت اگر 74 روپے ہی مان لی جائے تو وہ روزانہ 240 روپے یعنی ماہانہ ساڑھے سات ہزار روپے بھی نہیں کماپاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS