تیسری لہر اور ڈیلٹا پلس ویرینٹ

0

جدید دنیا کے سائنسی اور طبی معجزات کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کورونا وائرس مسلسل اپنی فتح اور کامرانی کے جھنڈے گاڑتا جارہا ہے۔پہلی اور دوسری لہر کے دوران اس معمولی سے نادیدہ جرثومہ نے جو قہر برپا کیا ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ جائزہ اور سروے کے بعد ماہرین اور صحت کی بااختیار کمیٹیوں نے بارہا متنبہ کیاتھا کہ دوسری لہر ہندوستان کیلئے سنگین صورتحال کا سبب بن جائے گی لیکن حکومت نے ماہرین کے انتباہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دوسری لہر کے چیلنج سے مقابلہ کیلئے نہ تو مرکزی حکومت نے کوئی تیاری کی اور نہ ریاستی حکومتوں کو ہی ہوش رہا۔ مناسب تیاری میں ناکامی کی وجہ سے ہندوستان دوسری لہر کی تباہ کاری پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہا۔کورونا کی دوسری قاتل لہر نے دنیا کی ’ فارمیسی‘ کہے جانے والے ہندوستان کی قلعی اتاردی اور پورے ملک کو دوا، آکسیجن، ویکسین کی سخت ترین قلتوں کا سامنا کرنا پڑا۔اب خداخدا کرکے دوسری لہر کا دم ٹوٹ رہاہے تو حکومت کے ساتھ ہی عوام نے بھی چین کی بانسری تھام لی ہے۔ا یسا لگ رہاہے کہ تیسری لہر کے انتباہ کو بھی، پہلے ہی کی طرح غیر سنجیدگی سے لیاجائے گا۔ لیکن اگر یہ رویہ اختیار کیاگیا تو آنے والی تباہی سے ہندوستان کاسنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔
ماہرین جو، اب تک تیسری لہرکی ممکنہ آمد کے خدشات سے پریشان تھے ان کیلئے کورونا وائرس کے نئے ڈیلٹا پلس ویرینٹ نے بھی مشکلات کا پہاڑ کھڑا کردیا ہے۔کورونا وائرس کا یہ ویرینٹ انتہائی خطرناک بتایاجارہاہے۔کیرالہ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں اس موذی ویرینٹ کی تصدیق ہوچکی ہے، اب تک اس کے سیکڑوں معاملات سامنے آچکے ہیں اوراس کے بڑھتے ہی رہنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ تشویش میں اضافہ کایہ سبب بھی ہے کہ کورونا وائرس کا یہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ تیسری لہر کے دوران انفیکشن پھیلنے کی رفتار کودوسری لہر کے مقابلے میںدو گنا اور تین گنا تک تیز کرسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے دو مہینوں میں ہندوستان کو کورونا کی تیسری لہر کا سامنا ہوگااور یہ لہر آئند ہ ایک سال تک عوام کیلئے خطرے کا سبب رہے گی۔تیسری لہر کے خدشات کے درمیان ڈاکٹر، سائنسداں، وبائی امراض کے ماہرین اوردنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے صاحبان علم سے ایک سروے کیا گیا تھا۔ان میں سے85فیصد نے اکتوبر میں تیسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جب کہ کچھ نے اگست یا ستمبر میں بھی اس کے آنے کی بات کہی۔اس سروے میں شامل تین ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کی تیسری لہر نومبر یا فروری میں بھی آ سکتی ہے۔جب کہ دو تہائی ماہرین یعنی 40 میں سے 26 کا کہنا ہے کہ تیسری لہر میں بچے اور 18 برس سے کم عمر کے افراد وبا سے زیادہ متاثر ہوں گے۔یعنی تیسری لہر بالکل الگ قسم کا مسئلہ ہو گا جو ایک بڑی تباہی میں بھی بدل سکتا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر دیوی شیٹی پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ تیسری لہر میں اگر بچوں کی بڑی تعداد وبا کا شکار ہوئی اور ہم پہلے سے اس کیلئے تیار نہ ہوئے تو عین وقت پر کچھ نہیں کیا جا سکے گا۔لیکن زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس عمر کے لوگوں کیلئے فی الوقت کوئی ویکسین بھی دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں بچوں کی انتہائی نگہداشت کیلئے کوئی مناسب انتظام ہے۔
تاہم ماہرین کو یہ امید ہے کہ ٹیکہ کاری مہم میں اگر اضافہ ہوا اور تیزی سے اس مہم کو تکمیل تک پہنچایاگیا تو ممکن ہے کہ نئی لہر کی شدت کم رہے۔ لیکن ٹیکہ کاری مہم کی جو صورتحال ہے اس سے نہیں لگ رہاہے کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی ہے۔
21جون سے قبل تک کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کی محض 11فیصد آبادی کو ہی ابھی ٹیکہ کی پہلی خوراک مل سکی ہے اور فقط 3.4فیصد آبادی ٹیکہ کی دونوں خوراکیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ تیسری لہر کے آنے سے قبل ملک کی130کروڑ کی آبادی کو ٹیکہ لگاناممکن نہیں ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر بیان بازی اور روزانہ کی بنیادوں پر پریس کانفرنس کرکے دادو تحسین وصول کرنے او ر ہنگامہ مچانے کے بجائے اس سے نمٹنے کی زمینی تیاری کی جائے۔صرف فون میں احتیاط برتنے کی تلقین والی کالر ٹیون لگادینے سے تیاری پوری نہیں ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے انتباہات کی روشنی میں حکومت تیسری لہر اور ڈیلٹا پلس ویرینٹ سے نمٹنے کیلئے ابھی سے کمر کس لے ورنہ وقت گزر جانے کے بعداٹھایا جانے والا قدم اس وبا کو قابو میں نہیں کرسکتا ہے اور صورتحال اپریل، مئی کے مہینوں سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہے جب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگ اسپتالوں کے باہر دم توڑ رہے تھے،پارک اور کھیل کے میدانوں میں لاشیں جلائی گئیں جب وہاں بھی جگہ نہیں بچی تو ہزاروں لاشو ںکو دریامیں پھینک دینا پڑا تھا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS