پربھوناتھ شُکل
دیہی معیشت میں معاشی وسائل کی بات کریں تو زراعت اہم ہے۔ دوسرے پائیدان پر مویشی پروری اور منریگا جیسی اسکیموں کا کردار آمدنی کے لحاظ سے اہم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وبا کے دور میں دیہی معیشت پر کافی اثر پڑا ہے۔ شہروں سے مہاجر مزدوروں کی نقل مکانی اور روزگار کے مسئلہ نے دقتیں بڑھا دی ہیں۔ مہاتماگاندھی راشٹریہ گرامین روزگار گارنٹی اسکیم(منریگا) کووڈ کے دور میں اپنا مقصد پورا نہیں کرسکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف پورے سال میں منریگا سے ملنے والے روزگار میں تقریباً پچاس فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ اس کی وجہ سے دیہی معیشت مزید کمزور ہوئی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں جہاں پچاس کروڑ 83لاکھ لوگوں کو روزگار ملا تھا، وہیں اس سال صرف چھبیس کروڑ 38لاکھ لوگوں کو ہی اس اسکیم کے تحت کام مل پایا ہے۔ ظاہر ہے لاک ڈاؤن سے دیہی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق انفیکشن کی دوسری لہر گاؤوں میں زیادہ تیزی سے پھیلی۔ جب کہ پہلی لہر کا اثر صرف شہری علاقو ںتک محدود تھا۔ اس کے علاوہ روزگار کم ہونے کا دوسرا سبب الیکشن بھی رہا۔ جب بھی ملک میں انتخابی اعلانات ہوتے ہیں تو پہلے سے جاری فائدہ مند اسکیموں پر پابندی لگادی جاتی ہے، جس کا راست اثر روزمرہ کی زندگی پر پڑتا ہے۔ گاؤوں میں منریگا آمدنی کا خاص ذریعہ ہے، لیکن الیکشن کی وجہ سے اس پر پابندی لگادی گئی۔ اس کا اثر مغربی بنگال اور اترپردیش کے دیہی علاقوں پر صاف نظر آیا۔
دیہی علاقوں میں روزگار کے مسئلہ کو دور کرنے کے لیے منریگا کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس اسکیم کو دوسرے متبادل سے بھی منسلک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اسے زراعت اور دوسرے کاموں سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ یہ اسکیم تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب سرگرم مزدوروں کو مسلسل کام ملے۔ اس کے علاوہ حکومت کو منریگا مزدوروں کے لیے بہتر میڈیکل فیسیلٹی انشورنس اور دوسری سہولتیں بھی دستیاب کرانی چاہیے۔ اگر بدلے دور میں بھی منریگا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے تو اس کی اہم وجہ حکومتوں کی پالیسیاں اورنیت بھی رہی ہے۔ پنچایتوں نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بدلتے وقت میں اسے زراعت، تعمیرات اور دوسرے شعبوںسے بھی جوڑے جانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنچایتی سطح پر منریگا جیسی اسکیموں میں بدعنوانی کا بول بالا ہے۔ سرپنچ ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کا جاب کارڈ نہیں بنتا۔ جنہیں واقعی میں کام کی ضرورت ہے، انہیں کام نہیں ملتا۔ سرپنچ اپنے آدمیوں کا نام مسٹررول میں چڑھا دیتا ہے۔ بعد میں بینک اکاؤنٹ میں پیسہ آنے پر بندربانٹ(آپس میں تقسیم) کرلی جاتی ہے۔پھر منریگا میں پورے کام کے دن بھی جنریٹ نہیں ہوپاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسکیم اپنے مقصد سے بھٹکتی جارہی ہے۔ منریگا دیہی معیشت کی ریڑھ ہے۔ اس لیے ایسی اسکیمیں تبھی کامیاب ہوپاتی ہیں جب انہیں سیاست سے پوری طرح علیحدہ رکھا جائے۔ لیکن گاؤوں میں ایسا ہے نہیں۔
اترپردیش میں کچھ وقت پہلے ہی پنچایتی الیکشن ہوئے ہیں۔ وبا کے سبب سرپنچوں نے ڈیجیٹل طور پر ہی حلف لیا ہے۔ جون کا ماہ آدھا گزر چکا ہے۔ اس ماہ سے مانسون کی سرگرمی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ ویسے تاؤتے اور یس جیسے گردابی طوفانوں کی وجہ سے ریاست کے کئی حصوں میں بارش ہوچکی ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں مانسون سے پہلے کی بارش بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس وجہ سے بھی اب منریگا کا کام متاثر ہوا ہے۔ اسکیم میں رکاوٹ بھی ہے کہ 60فیصد مٹی کا کام کرانے کے بعد بھی پکے تعمیراتی کام پنچایتیں کراسکتی ہیں۔ مارچ اور اپریل میں پنچایتی الیکشن کی وجہ سے منریگا میں کام نہیں مل پایا تھا۔ اب مانسون کی وجہ سے دقت ہوگی۔ پورے مالی سال کا آدھے سے زیادہ وقت اسی میں گزر گیا۔ ایسے میں دیہات میں رہنے والوں کو روزگار کہاں سے ملے گا۔ اترپردیش اور دوسری کچھ ریاستوں میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ اس طرح کی کئی تکنیکی دقتوں کی وجہ سے منریگا میں روزگار پیدا نہ ہونے سے گاؤں والوں کی نقل مکانی شہروں کی جانب ہوتی ہے۔ اگر انہیں گاؤوں میں روزگار کی گارنٹی مل جائے تو کیوں شہروں کی جانب رُخ کرنے کے لیے مجبور ہو ںگے۔
مرکزی حکومت نے گزشتہ سال منریگا میں 10ہزار کروڑ کا بجٹ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 182روپے سے بڑھا کر مزدوری بھی 202روپے روزانہ کردی گئی تھی۔ مئی 2020میں 14کروڑ 62لاکھ روزگار کے دن پیدا کیے گئے۔ اس کی اہم وجہ تھی گاؤوں سے مزدوروں کی نقل مکانی کو روکنا اور انہیں گاؤوں میں روزگار دستیاب کرانا۔ لیکن دوسری لہر میں حکومت نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا، جس کی وجہ سے دیہی آبادی کی آمدنی پر برا اثر پڑا۔ مرکزی حکومت نے 2021-22کے لیے اس اسکیم میں73ہزار کروڑ روپے دیے ہیں۔ 2020-21میں 61ہزار کروڑ کی رقم دستیاب کرائی گئی تھی، جسے بعد میں بڑھا کر ایک لاکھ 11ہزار 500کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کے سبب شہروں سے گاؤں آئے مہاجر مزدوروں کے لیے چالیس ہزار کروڑ کی اضافی رقم دینے کے باوجود منریگا میں کام کے دن پیدا نہیں ہوپائے۔ آخر کیوں؟ قومی سطح پر منریگا کی بات کریں تو حقیقت میں یہ اسکیم دیہی علاقوں سے نقل مکانی روکنے میں بے حد کامیاب ثابت ہوسکتی ہے۔
منریگا کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے پنچایتی سطح پر اس اسکیم کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ تبھی اس اسکیم میں بدعنوانی دور ہوسکے گی اور ضرورت مندوں کو کام مل سکے گا۔ قومی سطح پر منریگا میں 13کروڑ 68لاکھ کنبے رجسٹرڈ ہیں۔ اس میں 26کروڑ 65لاکھ مزدور بھی شامل ہیں۔ جب کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ صرف 7کروڑ 61لاکھ کنبے ہی سرگرم ہیں جنہوں نے تین سال مسلسل کام کیا ہے۔ اس طرح کے مزدوروں کو ’منریگا ایکٹو جاب کارڈہولڈر‘ کہا جاتا ہے، جس کی تعداد 11کروڑ 70لاکھ کے قریب ہے۔ اعدادوشمار کی بات کریں تو سرگرم مزدوروں میں 19فیصد دلت اور 16فیصد سے زیادہ قبائلی ہیں۔ حکومت کی نظر میں سرگرم مزدور وہی ہیں جنہوں نے تین سال مسلسل منریگا میں کام کیا ہے اور مسٹررول میں ان کا نام رجسٹرڈ ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے منریگا کے کاموں پر ملک گیر اثر پڑا ہے۔ اگر گزشتہ سال مئی کی بات کریں تو صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔ اس دوران بہار میں 2کروڑ60لاکھ اور مغربی بنگال میں 2کروڑ80لاکھ سے زیادہ مزدور درج رہے۔ لیکن مغربی بنگال میں سرگرم مزدور صرف ایک کروڑ 40لاکھ رہے۔ کئی ریاستوں میں اعدادوشمار میں سرگرم مزدوروں کی تعداد جاب کارڈ میں رجسٹرڈ مزدوروں سے کم تھی۔ حالاں کہ گزشتہ سال گاؤوں میں کام مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس دوران پورے ملک میں چالیس فیصد سے زیادہ لوگوں نے منریگا میں کام کے لیے درخواست دی تھی۔ حالاں کہ ملنے والی مزدوری سے وہ مطمئن نظر نہیں آئے۔ اعدادوشمار اور دعوؤں کو سچ مانیں تو چھتیس گڑھ اس معاملہ میں سب سے اوّل رہا۔ ریاست میں منریگا کے تحت محنت کش مزدوروں کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ تھی۔ اس دوران یہاں 23لاکھ سے زیادہ سرگرم مزدور رہے۔ ملک میں منریگا کے تحت کام کرنے والے مزدوروں میں چھتیس گڑھ ریاست کے مزدوروں کا حصہ 24فیصد تھا۔
دیہی علاقوں میں روزگار کے مسئلہ کو دور کرنے کے لیے منریگا کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس اسکیم کو دوسرے متبادل سے بھی منسلک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اسے زراعت اور دوسرے کاموں سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ یہ اسکیم تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب سرگرم مزدوروں کو مسلسل کام ملے۔ اس کے علاوہ حکومت کو منریگا مزدوروں کے لیے بہتر میڈیکل فیسیلٹی انشورنس اور دوسری سہولتیں بھی دستیاب کرانی چاہیے۔ اگر بدلے دور میں بھی منریگا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے تو اس کی اہم وجہ حکومتوں کی پالیسیاں اورنیت بھی رہی ہے۔ پنچایتوں نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بدلتے وقت میں اسے زراعت، تعمیرات اور دوسرے شعبوںسے بھی جوڑے جانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)