’جونٹینتھ قانون‘ کا آفاقی پیغام

0

صبیح احمد

صدر بائیڈن نے بالآخر 19 جون کو امریکہ میں قومی تعطیل قرار دے دیا ہے۔ 1865 میں اسی روز امریکہ میں دور غلامی کے خاتمہ کا حکم غلاموں تک پہنچا تھا۔ حالانکہ صدر ابراہم لنکن نے دور غلامی کے خاتمہ کے حکم پر 1862 میں ہی دستخط کر دیے تھے لیکن 19 جون 1865 تک، جنگ کے خاتمہ کے کئی ماہ بعد، گیلویسٹن ٹیکساس میں غلاموں تک آزادی کا یہ حکم پہنچا تھا۔ امریکی صدر نے ملک کے لئے ایک نئے قومی دن ’جونٹینتھ نیشنل انڈ پینڈنس ڈے ‘ کے بل پر دستخط کرتے ہوئے اسے قانون کا حصہ بنا دیا ہے جس کے بعد 19 جون کا دن پورے امریکہ میں عام تعطیل کا دن ہو گا۔ ’ جونٹینتھ نیشنل انڈپینڈنس ڈے ‘ سے موسوم یہ قومی دن ہر سال 19 جون کو منایا جائے گا اور اس کا مقصد ملک سے غلامی کے خاتمہ کی یاد منانا ہے۔ یہ قومی تعطیل 19 جون 1865 کے اس دن کی یاد میں ہو گی جب یونین سولجرس نے گیلوسٹن، ٹیکساس میں سیاہ فام قیدیوں کے ایک گروپ کو مطلع کیا تھا کہ اب وہ آزاد ہیں۔ یہ اطلاع صدر ابراہم لنکن کی جانب سے ’ایمنسٹی پروکلیمیشن‘ (Amnesty Proclamation) یعنی آزادی کے پروانے پر دستخط کرنے کے ڈھائی سال بعد دی گئی تھی۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں پہلے ہی ’جونٹینتھ‘ کی مقامی سطح پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ 1983 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ڈے کی عام قومی تعطیل کی منظوری کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک اور دن قومی تعطیلات میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل قومی سطح پر سال میں 10 عام تعطیلات منائی جاتی ہیں۔

امریکہ میں غلامی کا خاتمہ انیسویں صدی میں ہی ہو گیا تھا لیکن بحیثیت قوم امریکیوں کے شعور میں اجتماعی طور پر اس کامیابی کا اعتراف شاید ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس کامیابی کو بلا تفریق نسل و رنگ اجتماعی طور پر منانے کا چلن عام نہیں ہو سکا ہے۔ انتظامی سطح پر بھلے نہ ہو، لیکن سکیورٹی فورسز کے ذریعہ رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کے الزامات آج بھی عام طور پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ تفریق آمیز سوچ اور ذہنیت ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک مخصوص قوم یا لوگوں کے تئیں ہوتی ہے۔ اس کا اثر وقت وقت پر دوسرے لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔

امریکہ میں دور غلامی اور جونٹینتھ کا بہت قریبی رشتہ ہے۔ تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں براعظم افریقہ سے لوگوں کو اغوا کر کے امریکی کالونیوں میں لایا جاتا تھا۔ ان سے صنعت یا زراعت کے شعبے بالخصوص تمباکو اور کپاس کے کھیتوں میں زبردستی کام لیا جاتا۔ انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں ’ویسٹ وارڈ ایکسپینشن‘ (Westward Expansion) یعنی علاقائی توسیع اور غلامی کے خاتمہ کی تحریک نے غلامی سے متعلق ایک بڑی بحث کو جنم دیا جو بعد میں ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کا سبب بنی اور یوں تقریباً 4 ملین یعنی 40 لاکھ غلاموں کو آزاد کر دیا گیا۔ امریکہ نے غلامی کے خاتمہ کے لیے طویل جنگ لڑی اور جیتی ہے لیکن یہ آزادی سیاہ فام غلاموں تک بہت سست رفتاری سے پہنچی۔ گیلویسٹن ٹیکساس میں قید سیاہ فام غلام شاید آزادی کا پروانہ سننے والا آخری گروپ تھا۔ 19 جون افریقی امریکی کمیونٹی میں بڑی اہمیت کا حامل دن ہے اور ہر سال اس دن کو یاد کیا جاتا ہے اور اس کو ’جونٹینتھ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن سیاہ فام اپنا بہترین لباس زیب تن کرتے ہیں۔ پریڈس میں شرکت کرتے ہیں اور کمیونٹی کے اجتماعات اور خاندانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے ہیں۔ تقاریر سنتے ہیں اور آزادی اور کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں۔ امریکہ کی 50 میں سے 47 ریاستیں پہلے ہی ’جونٹینتھ‘ کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس دن کو جوبلی ڈے، ایمینسیپیشن ڈے، دی بلیک فورتھ آف جولائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
حالانکہ امریکہ میں غلامی کا خاتمہ انیسویں صدی میں ہی ہو گیا تھا لیکن بحیثیت قوم امریکیوں کے شعور میں اجتماعی طور پر اس کامیابی کا اعتراف شاید ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس کامیابی کو بلا تفریق نسل و رنگ اجتماعی طور پر منانے کا چلن عام نہیں ہو سکا ہے۔ انتظامی سطح پر بھلے نہ ہو، لیکن سکیورٹی فورسز کے ذریعہ رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کے الزامات آج بھی عام طور پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ تفریق آمیز سوچ اور ذہنیت ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک مخصوص قوم یا لوگوں کے تئیں ہوتی ہے۔ اس کا اثر وقت وقت پر دوسرے لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کی خاتون جج جسٹس سونیا سوٹومائیور نے بھی اصول پسندی کو انصاف کا ماخذ قرار دیتے ہوئے اس بارے میں ناقدانہ انداز میں سوچنے کی ضرورت پر زور دیاہے کہ وہ پولیس اور شہریوں کے درمیان کیسے تعلقات اور رابطے چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بطور معاشرہ ہم کیا چاہتے ہیں اور پولیس کا شہریوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ ہونا چاہیے؟ جسٹس سونیا کا کہنا ہے کہ صرف یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ایسا سیاہ فام کے ساتھ ہوتا ہے، کسی بھوری رنگت والے یا کسی ایشیائی حتیٰ کہ کسی سفید فام کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ جو معیار ہم آج طے کریں گے، وہ کبھی نہ کبھی سب پر لاگو ہوں گے۔ جسٹس سونیا نے کسی خاص پولیس واقعہ کا حوالہ یا ذکر تو نہیں کیا لیکن یہ بیان امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر منی ایپلس پولیس کے سابق آفیسر ڈیرک شاون کو ایک ماہ قبل جارج فلائیڈ کے قتل میں سزاوار پائے جانے کے بعد آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات پر امریکی میڈیا میں کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔
بہرحال صدر بائیڈن نے تاخیر سے ہی سہی، مذکورہ بل کو منظوری دے کر امریکیوں کے اجتماعی شعور کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ بائیڈن نے بل کو کانگریس کی دونوں جماعتوں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کے اراکین کی حمایت حاصل ہونے پر خاص طور پر خوشی کا اظہار کیا۔ ابھی تک ’اس دن‘ کو امریکہ کی سیاہ فام آبادی ہی خاص طور پر منایا کرتی تھی۔ درحقیقت صدر بائیڈن کا یہ فیصلہ اس بات کو تسلیم کرنے کی سمت ایک بڑا قدم ہے کہ غلامی کا خاتمہ امریکیوں کی مشترکہ کامیابی ہے۔ یہ صرف سیاہ فام یا کسی ایک قوم کی کامیابی نہیں ہے۔ یہ غلامی سے اجتماعی آزادی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں امریکیوں کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ لگ گیا۔ بہرحال یہ فیصلہ امریکی تاریخ کا یہ ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔ صدر بائیڈن نے بجا طور پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ ’ہمارے تعلقات‘ میں تبدیلی کی شروعات ثابت ہوگی۔ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عظیم قومیں مشکلات سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان لمحات کو یاد کرنے سے ہمارے زخم مندمل ہوتے ہیں اور ہم مضبوط بنتے ہیں۔ غلام بنائے گئے سیاہ فام امریکیوں کی آزادی نے امریکہ کی جانب سے مساوات کے وعدے کا آغاز کیا تھا۔ ’جونٹینتھ‘ کے حقیقی معنی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہمیں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی کیونکہ اب تک ہم وہاں نہیں پہنچ سکے۔
امریکی ایوان صدر وہائٹ ہائوس میں مذکورہ بل پر دستخط کا یہ تاریخی واقعہ صرف کسی ایک ملک یا قوم تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے احترام اور بقا کا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ سے آج پوری دنیا نبرد آزما ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں اور قوموں کو بھی صدر بائیڈن کے اس قابل تقلید فیصلے اور جذبے سے سبق لینے کی شدید ضرورت ہے۔ انسانی تاریخ میں غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ ارتقائی مراحل میں قوموں سے کبھی کبھی بہت بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ان غلطیوں کا اعتراف کیا جائے اور ان غلطیوں کی تلافی کے لیے وقت اور حالات کے تحت جب بھی اور جو کچھ بھی بن پڑے، وہ کیاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS