بیت المقدس ایک ایسا معاملہ جو سالوں سے چلا آرہا ھے، جہاں ہمیشہ قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا جاتا ہے، جہاں معصوم بچوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے، جہاں زانانہ باحجاب کو بے حجاب کیا جاتا ہے، جہاں ضعیفوں کی ضعفت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
مسئلہ فلسطین ایک ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ اخباروں کی سرخیوں میں رہتا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ ٹیلی ویژن کے اسکرینوں پر رہتا ہے۔
کیونکہ یہ وہ سر زمین ہے جسکا تعلق عقیدت و محبت سے ہے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، یہ وہ سرزمین ہے جہاں غیروں کے عقائد بھی شامل ہیں۔ کہ یہیں پر ہیکل سلیمانی ہوگا، اور یہیں پر دجال کا تخت ہوگا۔
یہی وہ نظریات ہیں جس کی بنا پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوتا رہتا ہے، مسلمان اس سرزمین کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اور یہودی یہاں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ اس سرزمین پر صرف ہمارا حق ہے اور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس سرزمین کو ہم ضائع نہ ہونے دیں گے، رھیں گے تو اسی سرزمین پر ورنہ جام شہادت پی لیں گے۔
قارئین ! اس دنیا میں دو طرح کے قانون رائج ہیں، ایک وہ قانون جسے اسلامی قانون کہا جاتا ہے، دوسرا وہ قانون جسے عوامی قانون کہا جاتاہے۔
اگر ان دونوں قانون کی رو سے اسرائیل اور فلسطین کا موازنہ کیا جائے، اگر ان دونوں قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں اور مسلمانوں کو تولا جائے تو یقیناً یہودی اس سرزمین کے لائق نہیں، اسرائیل کا نام نشان نہیں۔
اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں یہودیوں کو دیکھا جائے تو یہ بات مسلم ہے کہ یہودیوں کا سرے سے کوئی نام و نشان ہی نہیں، بیت المقدس پر انکا کوئی حق ہی نہیں۔
جیسا کہ فرمان باری ہے:
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِحَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔
(ترجمہ: یہ جہاں کہیں بھی ہیں، ان پر ذلت کی مار ہے، مگر اللہ کے ذمہ کے تحت یا لوگوں کے کسی معاہدہ کے تحت۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور یہ جسارت انھوں نے اس سبب سے کی کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور یہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔)
غور کیجیے کہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ جو باتیں فرمائی تھیں، وہ حرف حرف کس طرح پوری ہوئیں۔ یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مقابل میں کھلم کھلا میدان جنگ میں اترنے کی جرأت کبھی نہ کر سکے۔ اور اگر پس پردہ کبھی آئے بھی تو انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ ان کے جو قبائل مدینہ کے قرب و جوار میں آباد تھے، ان کو یکے بعد دیگرے نہایت ذلت کے ساتھ اپنی بستیاں خالی کرنی پڑیں، یہاں تک کہ حضرت عمر نے ان کو اپنے دور خلافت میں یک قلم جزیرۂ عرب ہی سے جلاوطن کر دیا اور اس کے بعد جہاں بھی ان کو امان ملی یا تو اسلام کے ذمیوں کی حیثیت سے امان ملی یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر انھیں زندگی کے دن گزارنے پڑے۔ کہیں بھی ان کی یہ حیثیت نہیں باقی رہی کہ وہ ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کر سکیں۔
مذکورہ بالا آیات کے الفاظ پر اچھی طرح غور کر کے بتائیے کہ ان میں کون سا لفظ ایسا ہے جس کی صداقت بعد کے واقعات نے ثابت نہ کر دی ہو؟
مذکورہ بالا پیشین گوئی کے علاوہ یہود کے بارے میں ایک اور پیشین گوئی سورۂ اعراف میں ان الفاظ میں وارد ہے:
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُھُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (۷:۶۷ ۱)
’’اور یاد کرو، جبکہ تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ ان کے اوپر قیامت تک وہ ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برے عذاب چکھائیں گے۔ بے شک، تیرا رب جلد پاداش دینے والا ہے اور وہ غفور رحیم ہے۔‘‘
یہ پیشین گوئی جس بات کی خبر دیتی ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو قیامت تک برے عذاب چکھاتے رہیں گے۔ اس میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ بیچ بیچ میں ان کو وقفے اور مہلتیں نہیں ملتی رہیں گی، بلکہ آیت کے آخری الفاظ ’اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘ سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ خدا ان کی سرکشیوں پر ان کو سزا بھی بھرپور دے گا اور ان کو اپنے قانون کے مطابق مہلتیں بھی عطا فرمائے گا۔
چنانچہ یہود کی تاریخ اور بائیبل ہسٹری کا مطالعہ کیجیے تو آپ اس امر کا اعتراف کریں گے کہ یہود کی تاریخ کا کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس میں انھوں نے اپنی سرکشی کی پاداش میں سوء عذاب کا مزہ نہ چکھا ہو۔
میرے لیے ان کی تاریخ کے اس طرح کے سارے واقعات کا حوالہ دینا اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے۔
میں صرف ان چند واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں جو یہود کے لیے قومی اور اجتماعی عذاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ سب سے پہلے مصر میں فرعونیوں کے ہاتھوں پامال ہوئے۔ پھر بنو خد نصر (مشہور بخت نصر) کے ہاتھوں ان کی پوری قوم کی قوم کو اسیری اور غلامی کی ذلت نصیب ہوئی۔
پھر ٹیٹس رومی نے ان کو تاراج کیا۔
پھر عیسائیوں کے ہاتھوں ان کو ذلتیں نصیب ہوئیں۔
پھر مسلمانوں نے ان کو ذمی بنایا۔
اب اس دور آخر میں ہٹلر نے ان کو سوء عذاب کا مزہ چکھایا۔
اس مسلسل عذاب کے دوران میں ان کو مہلت کے وقفے بھی ملے ہیں ، جیسا کہ عرض کیا گیا ہے، برابر ملتے رہے ہیں اور ان وقفوں میں یہ زور و قوت بھی حاصل کر لیتے رہے ہیں، لیکن یہ زور و دبدبہ جب ان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتا تو اللہ تعالیٰ پھرا ن پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیتا جو ان کا سر غرور کچل کے رکھ دیتے۔
اب اس سوال پر غور کیجیے کہ کیا فلسطین میں یہود کی ایک سلطنت قائم ہو جانے سے قرآن کے ان بیانات کی کسی نوعیت سے تردید ہوتی ہے جو اس نے آل عمران اور اعراف کی مذکورہ آیتوں میں دیے ہیں؟
آل عمران کی آیت کے متعلق وضاحت ہو چکی ہے کہ اس کا کوئی تعلق بھی مستقبل سے نہیں ہے، بلکہ صرف حاضر سے ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اس کو مستقبل سے متعلق کرنے پر اصرار ہی کرے تو اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس میں یہود کے لیے جس ذلت و مسکنت کی خبر دی گئی ہے، اس میں ’اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘ کا ایک استثنا بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی کسی امان کے تحت یا کسی قوم کے ساتھ معاہدے کے تحت ان کو وقتی طور پر اس ذلت سے مہلت بھی مل سکتی ہے۔ چنانچہ سلطنت اسرائیل ہمارے نزدیک اسی طرح کی ایک مہلت کا مولود فساد ہے جو برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ یہود کے ناجائز رشتہ سے ظہور میں آیا ہے۔
اس کو یہود کی اپنی کمر کے زور کا نتیجہ جو لوگ سمجھتے ہیں، وہ اسرائیل کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اس کا ظہور بھی برطانیہ اور امریکہ کی سازش سے ہوا ہے اور اس کا قیام بھی ابھی تک امریکہ اور برطانیہ ہی کے رحم و کرم پر ہے۔
بہر کیف! معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کی حیثیت سے اسرائیل کا سر زمین فلسطین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اب آئیے ذرا انٹر نیشنل لاء کی رو سے دیکھیں کہ کیا واقعی سر زمین فلسطین پر صرف یہودیوں کو حق حاصل ہے؟
قارئین ! جنرل اسمبلی کی جس قرارداد (نمبر 181) کے ذریعے فلسطین تقسیم ہوا اور اسرائیل قائم ہوا، اس قرارداد میں لکھا گیا تھا کہ بیت المقدس ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہو گا۔
یہی بات جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں کہی گئی۔
اور یہی اصول اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے 1949 میں طے کیا۔ یہی بات Armistice Agreement میں لکھی ہے لیکن پھر بھی اسرائیل بیت القدس پر قابض ہے اور اقوام متحدہ کو ٹھینگا دکھا رہا ہے۔
سلامتی کونسل نے 22 نومبر1967 کو قرارداد ( نمبر 242) منظور کی اور اسرائیل سے کہا وہ بیت المقدس خالی کر دے۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد ( نمبر 2252) میں کہی۔ لیکن اسرائیل نے نہ صرف قبضہ برقرار رکھا بلکہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا ہے۔
اس کے خلاف سلامتی کونسل نے پھر دو قراردادیں پاس کیں۔ جنرل اسمبلی نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا اور سلامتی کونسل نے ایک اور قرارداد ( نمبر 672) میں اس قبضے کو ناجائز قرار دیا۔
2016 میں ایک بار پھر سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد ( نمبر2334) میں ایک بار پھر اسرائیل کو انٹرنیشنل لا کی صریح خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے یروشلم سمیت تمام مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا ، لیکن اسرائیل تاحال یروشلم سمیت تمام مقبوضہ جات پر قابض ہے اور انٹر نیشنل لا کی دھجیا اڑ گئی ہے۔
اسرائیل کی ناجائز بستیوں پر اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں جن میں اس اقدام کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی بیت المقدس سمیت تمام مقبوضہ جات میں بستیاں بنانے سے باز رہیں لیکن اسرائیل یہ کام کیے جا رہا ہے، اور سر زمین فلسطین پر قبضے پر قبضہ کئے جارہا ہے۔
اسرائیل فلسطین کی ز مین پر قبضہ کرتا ہے اور اپنے شہریوں کو وہاں لے جا کر آباد کر دیتا ہے۔ باوجود اس کے کہ چوتھے جنیوا کنونشن کا آرٹیکل49 واضح طور پر کہہ رہا ہے کسی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں ہو گی کہ اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرے۔
ہیگ ریزولیوشن کے تحت اسرائیل کو کوئی حق نہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور مالکان کو بے دخل کردے۔
لیکن اسرائیل سب کچھ کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل کرمنل کورٹ اور روم سٹیچوٹ کے تحت یہ کام جنگی جرم تصور ہو گا لیکن اسرائیل اس جرم کا عشروں سے اعادہ کیے جا رہا ہے۔
جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکل 52 میں لکھا ہے: اس شک کی صورت میں کہ آیا کوئی جگہ جو بالعموم سویلین استعمال کے لیے وقف ہو، جیسے گھر، عبادت کی جگہ یا کوئی رہائشی عمارت یا سکول کسی فوجی کارروائی میں موثر معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا نہیں تو تصور کیا جائے گا کہ نہیں ہو رہی۔
گویا انٹرنیشنل لا نے گھروں اور عبادت گاہوں کو اس بہانے تباہ کرنے سے روک دیا ہے کہ کوئی طاقتور اٹھے اور شک کی بنیاد پر جس عمارت کو چاہے اڑا دے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ قراردادیں کیا ہوئیں جو اس اقدام کو نا جائز اور غاصبانہ قرار دے چکیں ہیں؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ قرار دادیں اب بھی موجود ہیں لیکن اقوام متحدہ میں کچھ غنڈے اور چمچے بھی شامل حال ہیں، جو اسرائیل کا مسلسل ساتھ دیئے جارہے ہیں۔
جس میں سر فہرست امریکہ اور برطانیہ ہے۔
یہی وجہ رہی کہ 1919 میں امریکی ماہرین کے ایک کمیشن نے امریکی صدر ولسن کو اپنی مفصل رپورٹ پیش کی کہ :
کمیشن سفارش کرتا ہے کہ برطانوی مینڈیٹ میں فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن قائم کر دیا جائے، اور دنیا بھر کے یہودیوں سے اپیل کی جاے کہ وہ فلسطین میں آکر بسیں اور انہیں ہر طرح کا تعاون بہم پہنچایا جاے۔
(كيف يفكر زعما الصهيونيه، امين هويدي)۔
اسی طرح ملک عبدالعزیز کے ایک خط کے جواب میں جس میں انہوں نے فلسطین کے تعلق سے امریکی رویہ پر خدشہ کا اظہار کیا تھا تو امریکی صدر ٹرومان نے کہا تھا کہ امریکہ اپنے رویہ پر اٹل ہے وہ یہ کہ عوام کو انکی حکومت دی جاے گی، اور فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری بھی ضروری ہے.
(فلسطين: تاريخا و عبرة و مصيرا ، شفيق الرشيدات.)۔
27 اکتوبر 1994 کو امریکی صدر کلنٹن نے اپنے اسرائیلی دورے میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ: تمہارا زوال ہمارا زوال ہے، امریکہ اب بھی تمہارے ساتھ ہے اور آئندہ بھی تمہارے ساتھ رہے گا۔
(البعد الديني في سياسية الامريكية… يوسف الحسن)۔
اسی طرح برطانیہ کے وزیر خارجہ فی الفور نے امریکی کمیشن کو ایک خط میں لکھا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی خواہ وہ حق پر ہوں یا باطل پر ، وہ اچھے ہوں یا برے ، ہماری تہذیب ہماری ضرورت اور مستقبل کی ہمارے آرزؤں کی تکمیل میں انکا اہم رول ہے۔
(الهية المصرية العامة للاستعلامات ٤٨)
قارئین! پتہ یہ چلا کہ اقوام متحدہ ہی میں کچھ غدار بیٹھے ہیں جو کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں، جو اندر ہی اندر فلسطین کی حمایت میں لگے ہیں، انہیں تقویت دینے میں مصروف ہیں جسکی وجہ سے مذکورہ بالا اقوام متحدہ کی قراردادیں اور فلسطینیوں کے حق میں اٹھائی گئی آوازیں بیکار ہیں۔
اس لئے چاہیے کہ اقوام متحدہ ان ممالک کی جو اسرائیل کا ساتھ دینے میں مشغول ہیں انکی پر زور مخالفت کرتے ہوئے اور ان پر دباؤ ڈالتے ہوئے خواہ وہ امریکہ ہو یا برطانیہ کسی کی نہ مانتے ہوئے فلسطینیوں کو انکا پورا پورا حق عطا کرے۔
ازقلم: امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد