تقریباً 4 دہائیوں تک ہندوستان کی سیاست کے نبض شناس اور سیاسی ہوا کا رخ بھانپنے کی خداداد صلاحیت کے مالک رہے آنجہانی رام ولاس پاسوان نے کبھی یہ سوچابھی نہیں ہوگا کہ ان کی موت کے محض8مہینے بعدان کی لوک جن شکتی پارٹی دو لخت ہونے کی دہلیز پر پہنچ جائے گی۔ ان کے سیاسی وارث بیٹے چراغ پاسوان کو خود ان کے ہی بھائی دیوار سے لگادیں گے۔ مگر یہ ہوگیا ہے۔ سیاست ہے ہی ایسی چیز کہ یہاں کوئی بھی صورتحال مستقل نہیں رہتی ہے۔ نہ اخلاق، نہ کردار، نہ وعدہ، نہ عہدکسی کو بھی استحکام نہیں ہے۔اگر کوئی چیز یکساں حالت میں رہتی ہے تو وہ ہے اقتدار اور کرسی۔ اس اقتدار اور کرسی کی خاطر ہی آج چچا اور بھتیجہ ایک دوسرے کے سامنے تلوار سونت کر کھڑے ہیں۔لوک جن شکتی پارٹی پر قبضہ کی خواہش نے لہو کے رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے۔
آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بھائی اورا یم پی پشوپتی کمار پارس نے جہاں پارٹی پر قبضہ جمالیا ہے تو وہیں ان کے بیٹے اب پارٹی دفتر پر قبضہ جمانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسپیکر کو خط لکھ کر پارٹی کے آئین کی دہائی دے رہے ہیں۔چراغ پاسوان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کے چچا نے ان سے کہاہوتاتووہ خود ہی پارٹی کی قیادت انہیں سونپ دیتے لیکن ان کے چچا نے ان کے ساتھ فریب کیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بھائی پشوپتی کمار پارس نے لوک جن شکتی پارٹی کے5ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ اپنا الگ خیمہ بنالیا ہے اور پارٹی کے قومی صدر کے عہدہ سے اپنے بھتیجہ چراغ پاسوان کو ہٹادیا ہے۔ادھر لوک سبھا کے اسپیکر اوم بڑلا نے پشوپتی کمار پارس کو ایوان میں پار ٹی کا قائد ہونے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس کے خلاف چراغ پاسوان نے اسپیکر کو خط کر کہا ہے کہ لوک سبھا میں پشوپتی کمار پارس کو پارٹی کا رہنما قرار دینے کا فیصلہ ان کی پارٹی آئین کے منافی ہے۔ چراغ پاسوان نے اسپیکر سے ان کے حق میں نیا سرکلر جاری کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔اس سے پہلے پارٹی صدر کی حیثیت سے انہوں نے کارروائی کرتے ہوئے باغی ہوجانے والے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی پارٹی سے نکال دیا۔ حالانکہ چراغ کے اس قدم سے ان ارکان پارلیمنٹ کو اب کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیوں کہ لوک سبھا اسپیکر نے پشوپتی پارس کو لوک جن شکتی پارٹی کا لیڈر تسلیم کرلیا ہے، ایک طرح سے انہیں پارٹی قیادت کی سرکاری منظوری مل گئی ہے۔چراغ نے ایک جذباتی ٹوئٹ بھی کیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پارٹی اورا پنے خاندان کو متحد رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرچکے ہیں لیکن ناکام رہے۔پارٹی کو ’ ماں‘ کی طرح قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماں کے ساتھ دھوکہ نہیں کیاجاناچاہیے۔پانچ ممبران پارلیمنٹ پشوپتی کمار پارس(چچا)، پرنس راج (چچازادبھائی)، چندن سنگھ، وینا دیوی اور محبوب علی قیصرکی علیحدگی کے بعد اب ایک طرح سے چراغ پاسوان پارٹی میں تنہا رہ گئے ہیں۔ پارٹی کے اندر ہونے والی اس چچا بھتیجہ کی لڑائی کے سبب پارٹی کارکنان اور لیڈران بھی دو خیموں میں بٹ گئے ہیں لیکن زیادہ تر کارکن اور ریاست کے دوسرے لیڈر چچا پشوپتی پارس کے ساتھ ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو لوک جن شکتی پارٹی میں اختلافات پچھلے سال ہونے والے بہار اسمبلی انتخاب سے ہی شروع ہوگئے تھے۔چراغ پاسوان نے جب این ڈی اے سے الگ ہوکر انتخاب میںاترنے کا فیصلہ کیاتھا تو اسی وقت کئی باتیں صاف ہوگئی تھیں۔چراغ پاسوان کے اس قدم کو این ڈی اے میں شامل جنتادل متحدہ کی طاقت کم کرنے کی کو شش سمجھاگیا۔تاہم چراغ پاسوان اس کی تردید کرتے ہوئے خود کو وزیراعظم نریندر مودی کا حامی اور این ڈی اے کا ساتھی بھی قرار دیتے رہے تھے۔لیکن اپنے بیان کے برخلاف انہوں نے بہار اسمبلی انتخاب کے میدان میںاین ڈی اے سے الگ 135 امیدوار اتاردیے۔نتیجہ قیاس کے مطابق ہی آیا اور ان کی پارٹی محض ایک سیٹ تک محدود ہوگئی۔مگر ان کے 135امیدواروں کی وجہ سے جنتادل متحدہ کو کم و بیش دو درجن سیٹوں پر ہار کاسامنا کرنا پڑا تھااور نتیش کمار کا سیاسی قد پہلے سے کم ہوگیا۔ اس ہار کے بعد اختلاف ہونے فطری تھے۔ اگر چند سیٹیں بھی ملی ہوتیں تو پارٹی کے اندر چراغ پاسوان کا دبدبہ برقرار رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد سے ہی اختلافات ہونے لگے۔ چند مہینے قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ چچا پشوپتی پارس اور پارٹی کے کئی دوسرے لیڈران بھی الگ امیدوار دینے کے فیصلے سے متفق نہیں تھے۔
اس وقت شروع ہوا عدم اتفاق اب اختلاف اور دشمنی کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ سیاست کے گرگ باراں دیدہ لیڈران نے نوجوان اور جوشیلے چراغ پاسوان کو دیوار سے لگادیا ہے۔ پارٹی کے تمام لیڈران پشوپتی پارس کی حمایت کررہے ہیں اور چراغ، یوسف بے کارواں بن گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چچا بھتیجہ کی اس لڑائی کا اختتام کیاہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ سیاست کی روایت ہے لوک جن شکتی پارٹی کی یہ صورتحال بھی مستقل نہیں رہنے والی ہے۔