پردیپ سریواستو
گزشتہ دنوں’لانگ مارچ بی-5‘ راکٹ اپنے مدار سے بھٹک کر واپس زمین پر گرگیا۔ اس سے پوری دنیا میں خوف پھیل گیا، کیوں کہ یہ امریکہ یا چین کے کسی شہر میں گر کر زبردست نقصان پہنچاسکتا تھا۔ مگر غنیمت تھی کہ وہ جنوبی بحرالکاہل(South Pacific Ocean)میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد خلا میں مسلسل بڑھتے کچرے پر بحث پھر سے گرم ہوگئی۔ سائنسدانوں کے مطابق خلا میں اس وقت 8,400ٹن سے زیادہ کچرا موجود ہے جو ادھر اُدھر اڑرہا ہے۔ یہ زمین پر گرسکتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق زمین پر کچرے کے بعد اگلا سب سے بڑا مسئلہ خلائی کچرے کا ہے جو تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
تقریباً 64سال پہلے 4اکتوبر 1957کو روس نے پہلی مرتبہ خلا میں انسانوں کے ذریعہ بنایا گیا سیٹلائٹ اسپوتنک بھیجا تھا۔ تب کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت خلا میں انسان کا یہ قدم ایک نیا مسئلہ پیدا کرے گا۔ دراصل زمین کی مدار میں بھیجے جانے والے انسان ساختہ سیٹلائٹ خلا میں ہی تباہ ہوجاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں زمین کے مدار میں گھومتے رہتے ہیں۔ یہ ملبہ زمین کے چہارجانب کافی تیز رفتار سے گھوم رہا ہے۔ اس میں ڈیڈاسپیس شپ، راکٹ، سیٹلائٹ لانچ کرنے والی گاڑیوں کے باقیات، میزائل شارپ نیل اور دیگر غیرفعال الیکٹرانک آلات(passive electronic components) کے باقیات شامل ہوتے ہیں۔
امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ خلا میں بڑھتے کچرے کی وجہ سے مستقبل میں انسانی مشن بھیجنا مشکل ہوجائے گا۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق خلا میں 19,173ٹکڑے چکر لگارہے ہیں۔ ان ٹکڑوں میں سے 34فیصد امریکہ کے اور 1.05فیصد ہندوستان کے ہیں۔ مگر ایسا نہیں کہ صرف ہندوستان یا امریکہ کے ذریعہ ہی یہ کچرا پیدا کیا گیا ہے۔ دوسرے ملک بھی اسے پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ہندوستان سے تقریباً بیس گنا زیادہ کچرا چین کا ہے۔ اس کے 3,987ٹکڑے خلا میں ہیں۔ خلا میں کچرا پھیلانا گزشتہ کچھ برسوں میں کافی تیزی سے بڑھا ہے۔ ناسا کے مطابق دس برسوں میں خلا میں تقریباً پچاس فیصد کچرا بڑھا ہے۔ ستمبر2008تک خلا میں 12,851ٹکڑے موجود تھے، جن کی تعداد نومبر2018تک بڑھ کر 19,173پہنچ گئی۔ گزشتہ تین برسوں میں کچرے کے مسئلہ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق خلا میں موجود کچرا آپس میں ٹکرا کر سالماتی ردعمل کر رہا ہے جو زمین کے مواصلاتی نظام کو خراب کر سکتا ہے۔ ایک کلوگرام کے ٹکڑے کی ٹکر کا اثر ایک کلوگرام ٹی این ٹی دھماکہ خیز مواد کے برابر ہو سکتا ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے دنیا کے کئی ملک اب خلا میں پھیلے کچرے سے نمٹنے کے لیے کام کررہے ہیں، اس میں سب سے پہلے ناسا کا نام آتا ہے، جبکہ یوروپی خلائی ایجنسی بھی اب اس کچرے سے نمٹنے کے لیے کام کرنے لگی ہے۔ خلائی کچرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ ایک پائلٹ مشن کی شروعات کرچکا ہے۔
موجودہ وقت میں خلا میں مردہ اور مصنوعی طور پر بنائی گئی مصنوعات کا کچرا8400ٹن ہے۔ ناسا کی مخصوص ایجنسیاں سبھی اہم بڑے ٹکڑوں کی پہچان اور آئی ایس ایس اور دوسرے سیٹلائٹ سے ٹکرانے کے خطرے کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ امریکہ نے ایک محکمہ بنایا ہے اور جیسے حالات بنتے جارہے ہیں ویسے آنے والے برسوں میں ہر چھوٹے بڑے ملک کو اپنے یہاں خلا میں کچرے کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔ خلائی کچرا ہمارے لیے اتنا خطرناک اس لیے ہے کیوں کہ اس کی رفتار تقریباً 28ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو کسی اسپیس کرافٹ کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ رفتار اتنی ہے کہ کچھ گھنٹے میں ہی یہ زمین کے کئی چکر لگالیتی ہے۔
خلا میں کچرے کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ناسا سب سے زیادہ کام کررہا ہے۔ اس نے خلا میں گھوم رہے دس سینٹی میٹر سے زیادہ بڑے 23ہزار ٹکڑوں کی تلاش کی ہے، جس میں 10ہزار ٹکڑوں کو خلائی کچرا بتایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کچرا تقریباً 8میٹر فی سیکنڈ یا 28ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہا ہے۔ اسے مزید آسانی سے سمجھیں کہ اتنی رفتار میں تقریباً 100گرام کی ایک چھوٹی چیز بھی ٹکرانے پر اتنا ہی اثر پیدا کرے گی، جتنا کہ تقریباً 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومنے والا 30کلوگرام کا پتھر ٹکرانے پر کرتا ہے۔ سائنسی زبان میں کہیں تو ایک چھوٹی چیز بھی اگر بہت تیزی سے کسی چیز سے ٹکراتی ہے تو اسے وہ بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ تبھی بندوق کی ایک چھوٹی سی گولی کسی کی جان لے لیتی ہے۔ یہ خلا میں کسی بھی دیگر سیٹلائٹ سے ٹکرانے پر اس سیٹلائٹ کو ناکارہ بناسکتی ہے۔
اگر خلائی کچرے کو مزید عملی طور پر سمجھیں تو ان بے حد چھوٹے ذرات سے ہونے والے نقصان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2008سے 2019تک تقریباً 100اسپیس شپس کی ونڈاسکرین یعنی کانچ بدلنی پڑی ہے۔ کیوں کہ یہ معمولی سے نظر آنے والے کچرے کے ٹکڑے ونڈاسکرین پر کھرونچ لگادیتے ہیں جس سے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ونڈاسکرین کسی بھی اسپیس شٹل کی جان ہوتے ہیں، اگر یہ ٹوٹ گئے تو لوگوں کی موت ہوجاتی ہے، اس لیے چھوٹی موٹی کھروچ میں بھی ونڈاسکرین کو بدلنا پڑتا ہے اور اس کی لاگت کروڑوں روپے ہوتی ہے۔ یعنی یہ کچرا اربوں روپے کا نقصان کراچکا ہے۔ ونڈاسکرین کو نقصان پہنچانے والے کچرے کا سائز ایک سینٹی میٹر سے کم تھا۔ اگر یہ ایک سینٹی میٹر سے بڑا ہوا تو سیٹلائٹ یا اسپیس شپ کی دیوار میں سوراخ کرسکتا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق خلا میں موجود کچرا آپس میں ٹکرا کر سالماتی ردعمل (molecular reaction) کررہا ہے جو زمین کے مواصلاتی نظام کو خراب کرسکتا ہے۔ ایک کلوگرام کے ٹکڑے کی ٹکر کا اثر ایک کلوگرام ٹی این ٹی دھماکہ خیز مواد کے برابر ہوسکتا ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے دنیا کے کئی ملک اب خلا میں پھیلے کچرے سے نمٹنے کے لیے کام کررہے ہیں، اس میں سب سے پہلے ناسا کا نام آتا ہے، جبکہ یوروپی خلائی ایجنسی بھی اب اس کچرے سے نمٹنے کے لیے کام کرنے لگی ہے۔ خلائی کچرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ ایک پائلٹ مشن کی شروعات کرچکا ہے۔ اس مشن میں ایک چھوٹا سیٹلائٹ خلا کے ملبہ کو تلاش کرنے اور پکڑنے کا کام کررہا ہے۔ اس سیٹلائٹ کو خلا ئی کچرے کو ہٹانے کے لیے زمین کے ایک خاص مدار میں تعینات کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان اور چین بھی خلائی کچرے کو ہٹانے کا کام شروع کرچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں چین نے ایک اسپیس کرافٹ چھوڑا، جو خلا میں موجود کچرے کو کھینچ کر واپس زمین پر لائے گا۔ اس اسپیس کرافٹ میں ایک بہت بڑا مچھلی کے جال جیسا چپکنے والا ڈینا لگا ہے جو کچرے کو ایک جگہ اکٹھا کرتا اور پھر اسے سمیٹتا ہے۔
حالاں کہ اس کے علاوہ بھی ناسا نے سبھی ممالک کو کچھ مشورے دیے ہیں، جن پر عمل کرکے خلا میں کچرے کے مسئلہ سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس میں پہلا ہے اسپیس کرافٹ کے کچرے کو ناکارہ کرنا، یعنی کسی مشن کی افادیت کے آخر میں اسپیس کرافٹ میں موجود کسی بھی خلائی توانائی کے ذرائع اور اس سے وابستہ چیزوں کو ہٹادیا جائے، جس سے کچرا پیدا ہی نہ ہو۔ دوسرا ہے، ایسے اسپیس کرافٹ کی تعمیر کی جائے جو کچرے کو ایک جگہ رکھے اور بعد میں وہ ملک اسے ہٹادے۔ تیسرا ہے اسپیس کرافٹ کے کچرے کو ایسے مواد سے بنانا جو فضا میں دوبارہ داخل ہونے پر جل جاتا ہے۔ بین الاقوامی اصول بنے کہ خلائی مشن کی مدت پچیس برس طے ہو۔ اس کے بعد سیٹلائٹ کو نیچے لانے کی ذمہ داری اس ملک کی ہو، جس سے کچرا واپس زمین پر آجائے۔ اسپیس کرافٹ کے ٹوٹے پھوٹے حصوں کی کسی روبوٹ یا خلاباز کے ذریعہ مرمت کرائی جائے، جس سے خلا میں کچرا بنے ہی نہیں۔ اگر سبھی ملک سختی سے ان ضوابط کو اپنالیں تو یقینی طور پر خلائی کچرے کے مسئلہ سے نمٹا اور آنے والے کل کو خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)