کورونا انفیکشن کی دوسری لہر کی رفتار میں وہ شدت نہیں رہی ہے جو دو مہینے قبل تک تھی مگر تیسری لہر کے سنگین خدشات کے پیش نظر ملک کی مختلف ریاستوں میں پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ہر چند کہ َان لاک کا عمل شروع کردیاگیا ہے مگر ممکنہ خطرات کے پیش نظر معاشی سرگرمیاں پوری طرح بحال نہیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کو سخت صعوبتوں کا سامنا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے شروع نہ ہونے کے سبب آمدنی کم ہوجانے کی وجہ سے پریشان عام آدمی کیلئے بڑھتی مہنگائی ایک نیاآزار بن کر سامنے آئی ہے۔عوام پہلے ہی مہنگائی کی آگ میں جل رہے تھے مگر پیر کو آنے والے تھوک اور خردہ مہنگائی کے ڈاٹا نے اس آگ کی لو کو اور تیز کردیا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ خردہ مہنگائی کی شرح بڑھ کر6.3فیصد پر پہنچ گئی جو گزشتہ 6 مہینوں میں سب سے اونچی شرح ہے۔ اپریل کے مہینہ میں مہنگائی کی یہ شرح 4.23فیصدتھی۔تھوک مہنگائی نے اس سے زیادہ اونچی چھلانک لگائی ہے۔ اپریل کے مہینہ میں تھوک مہنگائی کی شرح یعنی ڈبلیو پی آئی(ہول سیل پرائس انڈیکس) 10.49فیصد تھی جو مئی کے مہینہ میں12.94 پر پہنچ گئی۔ مسلسل دومہینوں تک تھوک مہنگائی اکائی کے ہندسہ سے باہر رہی ہے۔حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال 2020میں اسی مدت کے دوران مہنگائی 3.37فیصدتھی۔
اس مہنگائی کی وجہ بتاتے ہوئے حکومت نے ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے بجائے معیشت کی تکنیکی اصطلاح ’ لو بیس ایفیکٹ‘ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ لو بیس ایفیکٹ،خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور دوسرے معدنی تیل نیز تیار کیے جانے والے سامانوں کی قیمت میں آئی تیزی کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔
اس بے لگام بڑھتی ہوئی مہنگائی کیلئے حکومت جو چاہے وجہ بیان کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کی ان عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے خلاف پورا ملک آج سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ کسان سے لے کرمزدور تک حکومتی جبر کا شکار ہورہا ہے۔ ملک کے کسانوں نے غلے اور غذائی اجناس کی پیداوار میں کہیں کوئی کمی نہیں کی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی کو قانونی حیثیت دے کر حکومت نے سرمایہ داروں کو اناج کا ذخیرہ کرنے کی کھلی اجازت دے دی جس کے نتیجہ میں آج عوام کا کچن غذائی اجناس سے خالی ہے اور سرمایہ داروں کے گودام بھرے پڑے ہوئے ہیں۔ قیمتیں عوام کی رسائی سے دور بے لگام اور آسمان چھورہی ہیں۔ مہنگائی کا یہ طوفان تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہاہے۔
ایسے وقت میں جب ملک کے غریب عوام لاک ڈائون کی وجہ سے روزی روٹی کے سنگین مسئلہ سے دوچار ہوں یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومت عوام کیلئے راحتی اقدامات کرے گی لیکن اس کے برخلاف حکومت نے عوام کو آسمان چھوتی مہنگائی کا تحفہ دیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے علاوہ مہنگائی کی دوسری سب سے بڑی وجہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر کیاجانے والا اضافہ ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے جبکہ ہندوستان کی حکومت اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے اور ملک کے معاشی بحران کا بوجھ غریب عوام پر منتقل کررہی ہے۔ ملک کے بیشتر شہروں میں پٹرول اورڈیزل دونوں کی قیمتیں 100روپے فی لیٹر سے زیادہ ہوچکی ہیں اور یہ قیمت حکومت خود بڑھارہی ہے۔ پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کا راست اثرٹرانسپورٹ پر پڑتا ہے اور ڈھلائی کا خرچ بڑھ جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت ساری چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں اور یہی ہورہاہے۔گزرنے والے مئی 2021میں پٹرول کی 62.28 فیصد اورڈیزل کی قیمت میں 66.3 فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجہ میںمئی 2021 میں دالوں کی قیمتوں میں 12.09 فیصد، پیاز میں 3.24، پھلوں میں 20.17، دودھ میں2.51 فیصد اور انڈوں، گوشت اور مچھلی کی قیمتوں میں 10.73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وائرس کاخوف، لاک ڈائون کا عذاب اوراس کے ساتھ بڑھتی مہنگائی کے بوجھ سے ایک طرف عوام زمین بوس ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کی یہ دیمک دھیرے دھیرے ملک کی مجموعی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے ہونے والی کالی آمدنی ملک میں ایک متوازی معیشت کے طور پر گردش کررہی ہے۔ایسے میں یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں عوام کو الجھانے اورمہنگائی کی اول جلول تاویل پیش کرنے کے بجائے اسے قابومیں کرنے کی کوشش کرے۔کسی ملک اور حکومت کیلئے آسمان پر کمند ڈالنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ وہ کھانے پینے اوربنیادی ضرورت کی چیزوںکو اپنے عوام کی رسائی میں رکھے۔
[email protected]
مہنگائی کا طوفان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS