صبیح احمد
گزشتہ کچھ دنوں سے مرکز کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر اہم ریاست اترپردیش میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اندر رسہ کشی کی خبریں آ رہی تھیں۔ خصوصاً ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی قیادت کے درمیان رشتے کے حوالے سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی جا رہی تھیں۔ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ شاید یوگی کو کوئی اور ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ انہی خبروں کے درمیان وزیراعلیٰ یوگی کا اچانک دہلی کا 2روزہ دورہ ہوا۔ اس دوران انہوں نے وزیراعظم نریند مودی، پارٹی صدر جے پی نڈا، پارٹی کے سابق صدر اور مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ سمیت کئی سینئر رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور پھر ریاست میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی الیکشن میں جیت کا ’فارمولہ‘ لے کر لکھنؤ واپس چلے گئے۔ یہ قیاس آرائی بھی کی جا رہی تھی کہ شاید آئندہ الیکشن یوگی کی قیادت میں نہ لڑے جائیں لیکن آخرکار طویل ملاقاتوں اور حالات کے جائزہ کے بعد یہ طے پایا کہ 2022 کے اسمبلی انتخابات وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں ہی لڑے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انتخابی حکمت عملی بھی طے کی گئی کہ الیکشن میں پارٹی کی جیت کے لیے کون سے ایشوز زیادہ کارآمد ثابت ہوںگے۔
مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ، آسام اور پدوچیری میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ناقص کارکردگی اور خاص طور پر مغربی بنگال میں مودی-شاہ کی ٹیم کی ’مقبولیت‘ کی جو درگت ہوئی، اس سے آر ایس ایس کو بھی کافی مایوسی ہوئی۔ اسی لیے بھگوا بریگیڈ اس ٹیم کو دوبارہ اور وہ بھی اترپردیش جیسی ریاست میں، آزمانے کی حماقت کرنے کو تیار نہیں ہوااور اپنے دیرینہ اور آزمودہ ایشوز پر ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ ان ایشوز پر الیکشن لڑنے میں وزیراعلیٰ یوگی کسی سے کم نہیں قرار دیے جا سکتے۔ درحقیقت مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان ایشوز کو اتنا زور شور سے نہیں اٹھایا بلکہ مقامی ایشوز پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ حالانکہ بنگال میں ہندو-مسلم کے ایشو کواٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی جارحانہ حکمت عملی سے یہ ایشو بی جے پی کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوسکا۔ ان انتخابات کے دوران بی جے پی کا پورا زور وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت کو کیش کرنے پر مرکوز تھا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی حکومت کے ’وکاس‘ اور مدمقابل اپوزیشن پارٹیوں کی ’ناقص کارکردگی‘ اور ان کی ’نا اہلی‘ کو ایشو بنانے کی کوشش کی گئی۔ نریندر مودی کے چہرے کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں یعنی ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کے نعرے پر خاص توجہ دی گئی۔ مگر یہ سب بے کار ثابت ہوا، کوئی بھی ترکیب کام نہ آئی۔ ’وکاس‘ کا تو وہ حال ہوا جو کبھی ’شائننگ انڈیا‘ کا ہوا تھا۔
ہندوستان کسانوں کا ملک ہے۔ کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ جب ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگائی جائے گی تو اس کا اثر کتنا ہوگا اور کہاں کہاں ہوگا، اس کا اندازہ شاید اب لگ گیا ہوگا۔ کسان لیڈروں نے اپنے مطالبات کی تکمیل تک اپنی یہ حکمت عملی پورے ہندوستان میں ہر الیکشن کے دوران اپنانے کا باضابطہ اعلان کر رکھا ہے۔ بی جے پی نے اس حکمت عملی کا اثر دیکھ بھی لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اب اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا شروع کر دیا ہے۔
دراصل ووٹروں نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ کمر توڑ مہنگائی، پٹرول ڈیزل اور روز مرہ کی ضروری اور خوردنی اشیا کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ جیسے حقیقی ایشوز جب لوگوں کے سامنے تھے تو ’وکاس‘ جیسے صرف زبانی جمع خرچ والے ایشو ز کہا ں ٹکنے والے تھے۔ سب سے بڑا ایشو تو کووڈ19- ا نفیکشن کی وبا کے دوران سرکار کی بد نظمی اور حالات کو سنبھالنے میں اس کی نااہلی تھی جس کے سبب اموات کا لا متناہی سلسلہ جاری تھا اور یہ سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ گزشتہ سال یعنی 2020 کے لاک ڈائون کے بعد جب کووڈ کے معاملے کم ہونے لگے تو سرکار نے یہ مان لیا کہ اس وبا پر قابو پا لیا گیا ہے اور وہ اپنی پیٹھ ٹھونکنے میں لگ گئی۔ حالانکہ طبی ماہرین اس بات کا اندیشہ ظاہر کرتے رہے تھے کہ یہ مرض ابھی ختم نہیں ہوا، اس کی مزید لہریں آنے کا خدشہ ہے لیکن اسے سرکار کی نااہلی کہی جائے یا اقتدار کا زعم کہ ماہرین کے مشوروں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ سال ہنگامی طور پر اس وباکی روک تھام کے لیے جو انتظامات کیے گئے تھے، ان میں سے خصوصی مراکز جیسی کئی سہولتیں بھی ختم کر دی گئیں۔ سب سے زیادہ لاپروائی مذکورہ اسمبلی انتخابات کے دوران دیکھنے کو ملی۔ اس دوران عوامی سطح پر کووڈ پروٹوکال کی جو بے حرمتی ہوئی وہ اپنی جگہ، یہاں تک کہ مرکزی وزرا اور خود وزیراعظم نے بھی احتیاطی تدابیر کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ انتخابی جلسوں میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ اکٹھی کرکے تمام ضوابط کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ماسک، سینیٹائزنگ اور 2 گز دوری جیسی بنیادی تدبیروں کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیاجس کا خمیازہ مغربی بنگال آج بھی بھگت رہا ہے۔ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں میں لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن بنگال میں یکم جولائی تک لاک ڈائون کی توسیع کردی گئی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال مغربی بنگال میں کووڈ19-کا کوئی خاص اثر نہیں دیکھا گیا تھا۔
کووڈ19- وبا کے دوران بد نظمی کے ایشو کے علاوہ کسانوں کے مسئلہ نے بھی بی جے پی کو شدید نقصان پہنچایا۔ کئی مہینوں سے دھوپ، گرمی، برسات، جاڑا جیسی موسمی سختیوں سے مسلسل لڑتے ہوئے ملک کے کسان تحریک چلا رہے ہیں لیکن مرکزی سرکار کو ان کے دکھ درد کا کوئی خیال نہیں ہے۔ مرکزی سرکار کے 3 حالیہ متنازع قوانین کے خلاف کسان مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں لیکن سرکار ہے کہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ جن کے لیے یہ قوانین وضع کیے گئے ہیں، جب وہی ان سے خوش نہیں ہیں تو سرکار کو اس بات پر ایک بار ضرور غور کرنا چاہیے اور کوئی متبادل راستہ نکالنا چاہیے۔ سرکار کی خام خیالی یہ ہے کہ یہ صرف کچھ محدود علاقوں سے مٹھی بھر لوگ ہیں جو تھک ہار کر واپس اپنے کھیتوں میںچلے جائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بظاہر ان لوگوں کی تعداد ضرور کم لگتی ہے لیکن جسمانی طور پر نہ سہی مگر اخلاقی طور پر پورے ہندوستان کے کسان ان کے ساتھ ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں اس کا ثبوت بھی شاید مل گیا ہوگا۔ کسان لیڈروں نے بہ بانگ دہل ان ریاستوں میں جا جا کر بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی، حالانکہ انہوں نے کسی دیگر پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل نہیں کی تھی۔ ہندوستان کسانوں کا ملک ہے۔ کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ جب ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگائی جائے گی تو اس کا اثر کتنا ہوگا اور کہاں کہاں ہوگا، اس کا اندازہ شاید اب لگ گیا ہوگا۔ کسان لیڈروں نے اپنے مطالبات کی تکمیل تک اپنی یہ حکمت عملی پورے ہندوستان میں ہر الیکشن کے دوران اپنانے کا باضابطہ اعلان کر رکھا ہے۔ بی جے پی نے اس حکمت عملی کا اثر دیکھ بھی لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اب اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا شروع کر دیا ہے۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی پارٹی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ حالیہ میٹنگ میں یہ طے ہو گیا ہے کہ اترپردیش جیسی ریاست میں ہونے والے آئندہ اسمبلی الیکشن میں اپنے پرانے فارمولے کو ہی آزمایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کے دہلی سے واپس جاتے ہی اس فارمولے پر عمل درآمد بھی تقریباً شروع ہو گیا ہے۔ مذکورہ بالا ’نقصاندہ‘ حقیقی اور عوامی ایشوز کو دبانے کے لیے پھر سے اچانک آرٹیکل 370، رام مندر اور ماب لنچنگ جیسے ’فائدے مند‘ ایشوز ابھر کر سامنے آنے لگے ہیں۔ ان ایشوز پر اچانک یہ بیانات (بے مطلب کے بیانات) کیا کوئی منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں؟ اب دیکھنا ہے کہ اترپردیش کے آئندہ اسمبلی الیکشن میں ایشوز برسراقتدار پارٹیاں طے کرتی ہیں یا عام لوگ یعنی ووٹرس جو جمہوری قوت کا سرچشمہ ہیں۔
[email protected]