عجب صورت حال ہے!

0

وائرس سے جن ملکوں کے لوگ بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں، ان میں وطن عزیز ہندوستان بھی شامل ہے۔ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ کے بعد ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔ سال رواں کے مئی میں ایک وقت وہ آگیا تھا جب روزانہ 4 لاکھ سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے تھے۔ 6 مئی کو متاثرین کی تعداد 414433 تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے سے انہیں طبی سہولتیں مہیا کرانے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ کئی لوگوں کی جانیں بروقت آکسیجن نہ پہنچنے کی وجہ سے گئیں تو کئی لوگوں کو جانیں اس لیے گنوانی پڑیں، کیونکہ اسپتال میں بیڈ خالی نہیں تھے اور اسی لیے انہیں خاطرخواہ طبی سہولتیں نہیں مل سکیں۔ مئی میں روزانہ 2 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ جون میں اموات میں کچھ کمی آتی ہوئی محسوس ہوئی مگر 9 جون کو 6138 لوگوں کی موت نے یہ احساس دلا دیا کہ اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ مئی کے پہلے ہفتے کے مقابلے جون کے پہلے ہفتے میں کورونا متاثرین کی تعداد 25 فیصد بھی نہیں رہی ہے۔ کورونا کی آمد سے لے کر اب تک کے تجربات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کورونا سے بچاؤ اور حالات کو بڑی حدتک بہتر رکھنے کے لیے ویکسی نیشن پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، سرکار کو ویکسین مہیا کرانی ہوگی اور اس پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ ویکسین لوگوں کو دی جا رہی ہے یا نہیں، کیونکہ نجی اسپتالوں کو ویکسین مہیا کرانے اور اس کے کم استعمال کی خبریں چونکانے والی ہیں۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ایک ویکسین ایک آدمی کی زندگی ہے۔ ایک ویکسین اگر برباد ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی ویکسین سے محروم رہے گا، کورونا سے اس کے متاثر ہونے کا خدشہ رہے گا، چنانچہ سرکار کو صرف ویکسین مہیا ہی نہیں کرانی چاہیے، اسے یہ جاننے کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ سبھی ویکسین لگائی گئیںیا نہیں۔ اگر سبھی ویکسین نہیں لگائی گئیں تو اس کی اصل وجوہات کیا رہیں، کیونکہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتال ہو یا پرائیویٹ اسپتال، اس کی منمانی کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ ویکسین کی دستیابی کے سلسلے میں مرکزی حکومت اپوزیشن پارٹیوں کے نشانے پر رہی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ وزارت صحت کی 4 جون کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، مئی میں ملک بھر میں ویکسین کی کل 7کروڑ، 40 لاکھ خوراک مہیا کرائی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک کروڑ، 85 لاکھ خوراک نجی اسپتالوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ نجی اسپتالوں نے ایک کروڑ، 29 لاکھ خوراک کی خریداری کی مگر 22 لاکھ خوراک کا ہی استعمال ہوا یعنی 17 فیصد کا ہی استعمال ہوا اور بڑی تعداد میں اسٹاک بچا رہ گیا۔ اسٹاک کے بچے رہنے کی اصل وجہ کیا رہی، اس سلسلے میں دعوے سے کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ رپورٹ کے مطابق، ماہرین کا ایسا ماننا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے تقابل میں نجی اسپتالو ںمیں ویکسین کی اونچی قیمتیں ہونے اور اس سے لوگوں کی ہچکچاہٹ اسٹاک کے بچے رہنے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں مگر سرکار کو اصل وجوہات جاننے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ دہلی سرکار نے زیادہ ویکسین مہیا کرانے کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ دہلی والوں کی ٹیکہ کاری اگلے چند مہینوں میں کی جا سکے تو اس پر اس کی تنقید کی گئی تھی، یہ ایک ایشو بن گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ویکسین کا اسٹاک بچ جانے کی حقیقت بھی ان رپورٹوں کے بعد سامنے آئی ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ تقسیم کی گئی ویکسین میں سے 25 فیصد ویکسین نجی اسپتالوں کو مہیا کرائی گئی تھی مگر انہوں نے 7.5 فیصد ویکسین کا ہی استعمال کیا ۔سرکار کی طرف سے یہ بات تو سامنے آگئی کہ نجی اسپتالوں نے 7.5نہیں، 17 فیصد ویکسین کا استعمال کیا مگر یہ حقیقت بھی لوگوں کو جاننے کا حق ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ویکسین کا اسٹاک بچ کیسے گیا۔ جہاں تک نجی اسپتالوں کو 25 فیصد ویکسین مہیا کرائے جانے کی بات ہے تو اسے زیادہ بڑا ایشو نہیں بنایا جانا چاہیے۔ 7 برس کی حکومت میں وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو پوری طرح نہیں بدل سکتے تھے۔ سرکاری اسپتالوں کے بجائے نجی اسپتال کھلوانے پر پچھلی سرکاروں نے زیادہ توجہ نہ دی ہوتی تو آج سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتال نہ ہوتے۔ وطن عزیز ہندوستان میں سرکاری اسپتال 25778 ہیں تو نجی اسپتالوں کی تعداد 43486 ہے یعنی نجی اسپتالوں کی تعداد ڈیڑھ گنا سے زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں ویکسین کی 75 فیصد خوراک سرکاری اسپتالوں میں مہیا کرائی جاتی ہے اور 25 فیصد نجی اسپتالوں میں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے، البتہ نظر اس بات پر رکھی جانی چاہیے تھی کہ نجی اسپتال منمانی فیس وصول نہ کریں مگرکیا ایسا ہوا ہے؟ دیکھنے والی بات یہ بھی ہونی چاہیے کہ کن نجی اسپتالوں کو ویکسین کی کتنی خوراک مہیا کرائی گئی تاکہ ویکسی نیشن کی آئندہ کی حکمت عملی کامیابی سے آگے بڑھائی جا سکے اور یہ خبر کہیں سے نہ آئے کہ ویکسین کا اسٹاک بچ گیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS