وِبھا ترپاٹھی
خوف اور غیریقینی کے اس دور میں مایوسی، گھٹن، ذہنی دباؤ اور بے یارومددگار ہونے کا احساس جہاں ہر عمر، جنس، ذات اور پیشہ کو متاثر کررہا ہے، وہیں کچھ ایسے طبقے بھی ہیں، جنہیں ہم دوہرے طور پر متاثرہ مانتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں جہاں کم عمر کے یتیم ہوئے بچے شامل ہیں، وہیں ڈھلتی عمر میں بے یارومددگار ہوئے ماں-باپ بھی شامل ہیں۔
حقیقت میں جب ہم نے یہ ریزولیوشن فارمولہ نکالا کہ ’نوجوان نسل کو بنانا ہے سرپرست اپنے سرپرستوں کا‘ تو اس کے پیچھے منشا یہی تھی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے قرض سے ہم آزاد ہوسکیں۔ جو والدین ہمیں پیدا کرکے برسوں برس تک سنبھالتے ہیں، ہمیں ان کی زندگی کا سہارا بننا ہوتا ہے۔ ان کی جسمانی صحت اور حوصلہ کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اس ذمہ داری کو انجام دینا ایک معاشرتی فرض اور قانونی ذمہ داری تو ہے ہی، عالمی آفت کے چیلنج بھرے وقت میں پیدا ہونے والی دشواریوں کو سمجھنا اور اس کا ٹھوس حل تلاش کرنا بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔
ہندوستان 14کروڑ معمر افراد کی آبادی کے ساتھ پوری دنیا میں دوسرے مقام پر ہے۔ اس وبا کے دوران ان کی صحت سے متعلق تشویشات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے، اس کے کئی پہلو ہیں مثلاً اگر انہیں کورونا ہوا تو کیا ہوگا؟ کہاں رہیں گے؟ کون دیکھ بھال کرے گا؟ بچ پائیں گے یا نہیں؟ بچے رہنے کے لیے جو احتیاط اپنانی ہیں، جیسے نقل و حمل پر پابندی وغیرہ۔ اس کے سبب ان کے اکیلے پن میں اضافہ اور اس بات سے متعلق تشویش کہ اگر ان کے جیتے جی ان کے بڑھاپے کی لاٹھی(بچوں کی موت) ہی ٹوٹ گئی، تو کیا ہوگا؟ یہ مسائل محض تصوراتی نہیں ہیں۔
آکسی میٹر کی طرح کوئی ایسا آلہ بنانے کی بھی ضرورت ہے جو معمر افراد کے تناؤ کے سیچوریشن پوائنٹ کا اندازہ لگاسکے، تاکہ اسے دور کرنے کی کوششیں بھی فوری طور پر کی جاسکیں۔ ٹیلی ہیلتھ یا ٹیلی مواصلات صحت سے متعلق نکات اور علاج کے نظام کو درست کرتے ہوئے ایلڈرلائن نام کی ہیلپ لائن تو کام کررہی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خصوصی کال سینٹر بنائے جائیں، جن میں بزرگ افراد کو فون کرکے ان کا حال دریافت کیا جائے اور ایک ایسا گروپ تشکیل دیا جائے، جس میں بزرگ افراد کو آن لائن جوڑ کر ان کے تجربات شیئر کیے جائیں۔
اس ایشو پرصلاح و مشورہ کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موت ایک ایسا نقصان ہے، جو اس کنبہ کو تو متاثر کرتا ہی ہے، اس سے پورا ملک اور دنیا بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر کسی کنبہ کے نوجوان ممبر کی موت ہوجاتی ہے تو بھی اس کا اثرسب سے زیادہ اس کے معصوم بچوں اور بزرگ والدین پر ہی پڑتا ہے، کیوں کہ ان کے خطرات کا خوف اور جوکھم دوگنا ہوجاتا ہے۔
ہندوستانی آئین کے آرٹیکل15(3)میں خواتین اور بچوں کو کمزور طبقہ قرار دیتے ہوئے اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ریاست اس کی فلاح کے لیے خاص قانون بناسکے گی۔ فی الحال 14کروڑ سے اوپر کی آبادی والے بزرگ افراد کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ انہیں بھی آرٹیکل15(3)میں شامل کیا جائے اور جو بھی قانون نافذ کیے گئے ہیں انہیں مزید ٹھوس بنایا جائے۔ ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جو ان کے بہترین مفادات کو یقینی بناتی ہوں۔
منسٹری آف سوشل جسٹس کے ذریعہ بزرگ افراد کی فلاح کی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اور جب ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ آتا ہے تو حقوق انسانی کمیشن، جب کسی بزرگ خاتون کا معاملہ آتا ہے تو نیشنل وویمن کمیشن، دلت بزرگ کا معاملہ آتا ہے تو شیڈولڈ کاسٹس اینڈ ٹرائبس کمیشن اور جب اقلیت سے تعلق رکھنے والے بزرگ کا معاملہ ہوتا ہے تو اقلیتی کمیشن نوٹس لیتا ہے۔ قابل غور ہے کہ ایسے سبھی بزرگوں کے لیے ’ایک کمیشن ایک وزارت‘ کی پہل کی جائے۔
بزرگ افراد کی دیکھ بھال کے لیے کام کررہی کچھ غیرسرکاری تنظیمیں اپنی خدمات تو دیتی ہیں اور اس کے لیے مقررہ فیس کی ادائیگی بھی کرنی ہوتی ہے، ایسے میں حکومت کو ایک تین درجے کا نظام بنانا چاہیے، جس میں ایک میں مکمل طور پر مفت سہولت مہیا ہو، دوسرے میں ملی جلی اور تیسرے میں فیس پر مبنی نظام ہو اور اس کے لیے بزرگ افراد کا انتخاب ان کی ملازمت، معاشی حالت وغیرہ کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔
بزرگ افراد کے اعدادوشمار جمع کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جیسے ہی یہ اطلاع ملے کہ کسی بزرگ شخص کو انفیکشن ہوا ہے، وہاں پر اس کی عمر اور اس کے کنبہ کی تفصیل بھی دستیاب ہو اور یہ بھی خیال رکھا جائے کہ اگر گھر میں علاج چل رہا ہے تو بھی اور اگر اسپتال میں علاج چل رہا ہے تو بھی، ان کی فیملی، معاشی اور خدمت سے متعلق تفصیلات بھی دستیاب ہوں، تاکہ کسی بھی مخالف حالات میں سرگرمی کا مظاہرہ کیا جاسکے اور ان کی فلاح کی پہل کی جاسکے۔
اس کے مدنظر خطرات کو بھانپتے ہوئے مختلف طرح کے صلاح مشورے بھی عالمی، قومی، سرکاری اور غیرسرکاری اور ہیلتھ آرگنائزیشنز کے ذریعہ جاری کیے گئے ہیں، جنہیں آسان زبان میں ان تک پہنچانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ جس طرح بچوں کی فلاح کے لیے ہر ضلع میں چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کام کررہی ہے اسی طرح اولڈایج ویلفیئر کمیٹیوں کی بھی تشکیل ہونی چاہیے اور ایسے ادارے جو خدمات انجام دیتے ہیں اور اس کے لیے مقررہ معاوضہ بھی لیتے ہیں انہیں ہمدردی کی بنیاد پر مل کر کام کرنے والے اقدامات(cooperative action) کرنے چاہئیں۔ جو فیس دے سکتے ہیں اور جو فیس نہیں دے سکتے ہیں ان کے مابین ایک پل بناکر مناسب انتظام کرنا چاہیے۔
جہاں تک قانون یا عدالتی پہل کا سوال ہے یہ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس سے عدلیہ سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بزرگ افراد کے فوراً اسپتال میں داخل ہونے کو ترجیح دینے، ان کا علاج کرانے اور ٹیکہ کاری میں ترجیح دینے سے متعلق ہدایات سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کو یکساں طور پر دیتی رہی ہے۔آگے عدلیہ کو اس طرح متاثر، بے یارومددگار بزرگ افراد اور اپنے بچوں میں سے دونوں یا ایک کو کھونے سے یتیم ہوئے بزرگ افراد کی بحالی کے لیے بھی سنجیدہ رہنما ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔
بزرگ افراد کا ذہنی توازن قائم رکھنے اور معاشرتی سرگرمی میں اضافہ کی بھی کوششیں ہونی چاہیے۔ اجتماعی سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کے پاس اسمارٹ فون ہو، بلکہ اگر ایک بھی شخص اس اسمارٹ فون کا استعمال کرنے میں پرفیکٹ ہے تو وہ کانفرنس کالنگ کرکے دیگر لوگوں کو جوڑ سکتا ہے اور پھر سب ایک دوسرے سے اپنا دکھ سکھ بانٹ سکتے ہیں، معلومات کا لین دین کرسکتے ہیں۔ کچھ تنظیموں کے ذریعہ آرٹ، موسیقی وغیرہ کے ذریعہ علاج کے لیے مختلف سیشن کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے۔
معمر افراد کی دیکھ بھال کو ضروری خدمات کی فہرست میں رکھا جانا چاہیے۔ ایج ویل نامی ادارہ کے ذریعہ منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی ہے، جس میں بزرگ افراد کوجذباتی طور پر بااختیار بنانے کے لیے قومی پہل کی بات کہی گئی ہے، جسے نیشنل انی شیئٹو فار ایموشنل امپاورمنٹ نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ میڈیکل اور ہیلتھ سروسز بزرگ افراد کے گھر تک پہنچ سکیں اور ان کی جانچ گھر پر ہوسکے۔ ان کی ٹیکہ کاری، ان کی کاؤنسلنگ گھرپر ہوسکے اور گھر میں گھر کا ماحول ہوسکے۔
آکسی میٹر کی طرح کوئی ایسا آلہ(equipment) بنانے کی بھی ضرورت ہے جو ان کے تناؤ کے سیچوریشن پوائنٹ کا اندازہ لگاسکے، تاکہ اسے دور کرنے کی کوششیں بھی فوری طور پر کی جاسکیں۔ ٹیلی ہیلتھ یا ٹیلی مواصلات صحت سے متعلق نکات اور علاج کے نظام کو درست کرتے ہوئے ایلڈرلائن نام کی ہیلپ لائن تو کام کررہی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خصوصی کال سینٹر بنائے جائیں، جن میں بزرگ افراد کو فون کرکے ان کا حال دریافت کیا جائے اور ایک ایسا گروپ تشکیل دیا جائے، جس میں بزرگ افراد کو آن لائن جوڑ کر ان کے تجربات شیئر کیے جائیں۔ ’دادا-دادی کریں ساجھیداری‘ نام سے ان کا مستقل سیشن چلایا جائے۔ ان چھوٹی چھوٹی مثبت کوششوں سے ہم بن سکیں ان کا سہارا اور دے سکیں انہیں قوت و طاقت اور نبھاسکیں انسانیت کا فرض، تبھی کامیاب ہوسکے گا زندگی کا مطلب۔
(بشکریہ: جن ستّا)