چندرکانت لہاریا
کووڈ-19 ٹیکہ خرید اور سپلائی پالیسی میں حکومت نے جو جزوی تبدیلیاں کی ہیں، ان سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ملک میں جاری ٹیکہ کاری مہم اب کچھ حد تک پٹری پر لوٹ آئے گی۔ چیلنجز کی شروعات یکم مئی سے ہوئی، جب 18سے 44عمر کے بالغوں کے لیے ٹیکہ کاری شروع کی گئی۔ اس دن سے قیمتوں کے تعین کو لبرل بناتے ہوئے ایک نئی کووڈ-19ٹیکہ کاری پالیسی نافذ کی گئی۔ نئی عمر کے گروپ کو ٹیکہ کاری سے جوڑنے سے ٹارگیٹ آبادی تین گنا بڑھ گئی، جب کہ ٹیکہ کی سپلائی پہلے جیسی رہی۔ مرکز، ریاستوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ٹیکہ کی تین الگ الگ قیمتیں طے کی گئیں۔ پیداوار میں سے آدھے ٹیکوں کی خرید کی ذمہ داری ریاستوں اور پرائیویٹ سیکٹر کو سونپ دی گئی۔ ٹیکہ بنانے والی کمپنیوں کے ذریعہ مرکز، ریاست اور پرائیویٹ سیکٹر کے لیے 50-25-25فیصد کا فارمولہ بناکر ٹیکہ کی سپلائی کی جانے لگی۔ 18سے 44سال کے عمروالوں کی ٹیکہ کاری کے لیے سلاٹ بک کرنے کے لیے ’کو-ون‘ ایپ پر رجسٹریشن ضروری بنادیا گیا۔
صحت کے ماہرین اور ریاستی حکومتوں نے فوراً ہی نئی حکمت عملی میں کئی تکنیکی خامیاں بتائیں۔ پہلا جواز دیا گیا کہ دہائیوں سے چل رہی بچوں کی ٹیکہ کاری مہم سے لے کر پولیو کے خاتمہ تک مرکزی حکومت ہی ہمیشہ ٹیکے خریدتی رہی ہیں۔ چوں کہ ریاستوں کو خرید کا کوئی تجربہ نہیں ہے، اس لیے وبا کے دوران یہ تجربہ صحیح نہیں ہوگا۔ بازار پر مبنی نظریہ اپنانے اور ریاستوں کو ایک دوسرے سے ٹیکہ خریدنے میں مقابلہ آرائی کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مرکز کے ذریعہ اکٹھے خرید کے مقابلہ میں ٹیکوں پر کل سرکاری خرچ تقریباً تین گنا بڑھ جائے گا۔ اس سے ٹیکوں کی دستیابی بھی متاثر ہوگی، کیوں کہ غریب ریاستوں کے مقابلہ میں خوش حال ریاستیں ٹیکوں کو اپنے لیے کہیں زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ ان ہی ساری وجوہات سے ماہرین نے مشورہ دیا کہ وبا میں سبھی شہریوں کے لیے ٹیکے مفت ہونے چاہیے اور دنیا کے تمام ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی ٹیکوں کی خرید کی ذمہ داری مرکزی حکومت کو نبھانی چاہیے۔
بیشک ٹیکوں کی سپلائی اور پالیسیوں سے متعلق کچھ مسائل کو حل کردیا گیا ہے، لیکن یہ وقت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ ٹیکہ کی تقسیم اور ٹیکہ کاری کی عملی مشکلات کو دور کرنے کا بھی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اگلے 6-8 ماہ کے لیے کووڈ-19 ٹیکہ کاری کا ایک تفصیلی روڈمیپ بنانا ہوگا اور ٹیکہ کی سپلائی چین کو بھی درست کرنا ہوگا۔ ویکسین کی کمی سے نمٹنے کے لیے ثبوت پر مبنی کمیونی کیشن اسٹرٹیجی بنانے اور اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
بہرحال یکم مئی کو نئی پالیسی کے نافذ ہوتے ہی ٹیکہ کاری مہم تقریباً بے پٹری ہوگئی۔ سبھی عمر والوں کے لیے ٹیکہ کی کمی ہوگئی اوور اپنی دوسری خوراک کا انتظار کرنے والے لوگوں کا انتظار طویل ہوتا گیا۔ ٹیکہ کی سپلائی ایک بڑا چیلنج تھی۔ اس چیلنج سے ابھرنے کے لیے تقریباً 12ریاستوں نے گلوبل ٹنڈر، یعنی عالمی ٹنڈر جاری کیے، لیکن ٹیکہ بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے انہیں یہی جواب ملا کہ وہ مرکزی حکومت سے ہی خریدسے متعلق معاہدہ کریں گی۔
اس کے بعد، کئی وزرائے اعلیٰ نے مرکزی حکومت کو خط لکھ کر ان کے لیے ٹیکے خریدنے اور عام قیمت یا مفت میں انہیں مہیا کرانے کو کہا۔ نئی پالیسی سے پرائیویٹ اسپتالوں کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ ٹیکے ہوگئے، جب کہ سرکاری اسپتالوں میں اس کی کمی ہوگئی۔ نتیجتاً ٹیکہ کاری مہم کی رفتار دھیمی پڑتی گئی اور کئی ریاستوں نے 18-44برس والوں کے لیے ٹیکہ کاری بند کردی۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے خود اس معاملہ کا نوٹس لیا اور ٹیکہ کاری پالیسی کو ’منمانی اور غیرمعقول‘ بتایا۔ ’کو-وِن‘ پر لازمی رجسٹریشن بھی ایک چیلنج تھا، جس نے انٹرنیٹ سہولت والے موبائل یا کمپیوٹر نہ رکھنے والے ایک بڑے طبقہ کو ٹیکہ کاری کے پورے عمل سے باہر کردیا تھا۔
آخرکار7جون کو مرکزنے ویکسی نیشن پالیسی میں تبدیلی کی۔ اب مرکزی حکومت ہی ٹیکے کی کل دستیابی کا 75فیصد حصہ خریدے گی اور اس کی قیمت ادا کرے گی۔ ریاستوں کو ٹیکہ کاری کے لیے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں پہلے کی طرح ٹیکے مفت میں ملیں گے، جبکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی سروس ٹیکس کو زیادہ سے زیادہ 150روپے طے کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے کہ مفت ٹیکہ کاری کرکے حکومت نے کوئی لبرل رویہ دکھایا ہے۔ ہندوستان میں ہمیشہ سے سرکاری صحت خدمات مفت رہی ہیں۔ اسی لیے مرکز کا مفت میں کووڈ-19ٹیکہ کاری کا دعویٰ گلے نہیں اترتا۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی اس نے ٹیکہ کاری کی اپنی ذمہ داری ہی قبول کی ہے۔
اس وقت ملک میں سرگرم کووڈ-19 ٹیکہ کاری مراکز کی کل تعداد میں پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت داری محض 4فیصد ہے، جب کہ اسے 25 فیصد ٹیکہ مختص کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے پرائیویٹ سینٹروں پر ٹیکہ کاری کی دستیابی ضرورت سے زیادہ ہے اور سرکاری مراکز پر لوگ ٹیکوں کے لیے بھٹک رہے ہیں۔ چوں کہ آنے والے ہفتوں میں ٹیکہ کی پیداوار بڑھنے کے پورے امکان ہیں، اس لیے اچھی حکمت عملی یہی ہوگی کہ سبھی ٹیکہ کاری مراکز کے تناسب کے مطابق(تقریباً 5فیصد) پرائیویٹ سیکٹر کو ٹیکے مختص کیے جائیں۔ ایسا کرنے پر سرکاری مراکز پر ٹیکے کی دستیابی اور رفتار، دونوں میں کافی بہتری آسکتی ہے۔
پوری دنیا کے تمام ممالک میں لوگوں کو کووڈ ٹیکے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دینا پڑتا، خواہ وہ پرائیویٹ سینٹر سے ہی کیوں نہ اپنے ٹیکے لگوائیں۔ اگر ہندوستان بھی اپنی مہم کو حقیقت میں مفت کہنا چاہتا ہے تو اسے بھی وہی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ مرکزی حکومت کو ٹیکہ بنانے والی کمپنیوں سے صدفیصد خریداری کرنے اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ اسے شیئر کرنے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے(جیسا کہ جنوری سے اپریل تک کیا گیا تھا)، ساتھ ہی، پرائیویٹ سینٹروں کے سروس ٹیکس کی ادائیگی بھی عام لوگوں کے بجائے حکومت کرے، تبھی یہ ٹیکے حقیقت میں مفت کہے جاسکیں گے۔
بیشک ٹیکوں کی سپلائی اور پالیسیوں سے متعلق کچھ مسائل کو حل کردیا گیا ہے، لیکن یہ وقت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ ٹیکہ کی تقسیم اور ٹیکہ کاری کی عملی مشکلات کو دور کرنے کا بھی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اگلے 6-8ماہ کے لیے کووڈ-19ٹیکہ کاری کا ایک تفصیلی روڈمیپ بنانا ہوگا اور ٹیکہ کی سپلائی چین کو بھی درست کرنا ہوگا۔ ویکسین کی کمی سے نمٹنے کے لیے ثبوت پر مبنی کمیونی کیشن اسٹرٹیجی بنانے اور اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکہ کاری پالیسی میں تبدیلی صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے، لیکن اب بھی کافی کچھ کیا جانا باقی ہے۔ حکومتوں کو یہ یقینی بنانا ہی ہوگا کہ بغیر کسی مشکل کے ہر شہری کو ٹیکہ لگ پائے۔ ہندوستان ایسا پہلے کرپایا ہے، اس مرتبہ بھی ضرور کرپائے گا۔
(مضمون نگار عوامی پالیسی اور صحت نظام کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)