مہم جس سے کچھ نہ سیکھا ہم نے

اگر ضرورت سے زیادہ تشہیر اور کریڈٹ لینے کی جلدبازی نہ ہو تو کورونا دور میں بہت ساری چیزوں کو پارٹی سیاست سے بچایا جاسکتا ہے

0

ہرجندر

پولیو کا مقابلہ کسی بھی طرح سے کورونا سے نہیں کیا جاسکتا، سوائے اس کے کہ دونوں ہی وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں جس طرح سے جان-مال کا نقصان ہوا ہے، ویسی مثالیں انسانی تاریخ میں بہت کم ہیں۔ لیکن پولیو کے خاتمہ کے لیے ہم نے جو جنگ لڑی ہے، اس میں سیکھنے کے لیے ایسا بہت کچھ ہے جو کورونا دور میں ہمارے کام آسکتا ہے۔
یہ 1988کی بات ہے، جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) نے یہ طے کیا کہ بچوں کو پوری زندگی کی معذوری دینے والے اس متعدی مرض کے پوری دنیا سے صفایا کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ابھی تک چیچک ہی ایسی وبا ہے، جس کا ہم دنیا سے خاتمہ کرچکے ہیں۔ چیچک کا صفایا ایک مشکل جنگ ضرور تھی، لیکن پولیو کے خاتمہ کی کوشش اس سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہونے والی تھی۔ گلی-گلی، گاؤں-گاؤں اور گھر-گھر جاکر بچوں کو پولیو کی ویکسین دینا کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن کسی متعدی مرض کو پوری طرح شکست دینے کا طریقہ کہیں سے بھی آسان نہیں ہوسکتا۔ اس کام کو انجام دینے کا بیڑادنیا کی کچھ بڑی رضاکارانہ تنظیموں نے اٹھایا اور انہی کے ساتھ یہ پروگرام ہندوستان بھی آگیا۔
بہت جلد یہ واضح ہوگیا کہ چیلنج جتنابڑا ہے، اس سے رضاکارانہ تنظیمیں اکیلے نہیں نمٹ سکتیں۔ یہ ایسا کام ہے، جسے آگے جاکر حکومتوں کو انجام دینا ہوگا۔ 1995میں حکومت ہند نے یہ بیڑا اٹھایا، جس کے ساتھ ہی پورے ملک میں پلس پولیو مہم شروع ہوئی۔ اس کے لیے مرکزی وزارت صحت نے تفصیلی پروگرام تیار کیا۔ کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ صحت ریاستوں کا سبجیکٹ ہے، اس لیے اسے ریاستوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ دلیل بھی نہیں دی گئی کہ اس پروگرام کو گلی-گلی، محلہ-محلہ کی سطح پر نافذ کرنا ہے، اس لیے یہ ذمہ داری بلدیات (Municipalities) ، بلدیاتی اداروں اور گرام پنچایتوں کو دی جانی چاہیے۔

امریکہ اور برطانیہ کی ٹیکہ کاری حکمت عملی کو اس ملک میں بھی جوں کا توں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جہاں مریضوں کے لیے اسپتالوں میں بستر دستیاب نہیں تھے، نہ مناسب وینٹی لیٹر تھے اور نہ ہی آکسیجن سلنڈر۔ ملک میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کے چرچے تو کووڈ دور کی شروعات سے ہی ہو رہے ہیں اور اب ان ہی سب کے کندھوں پر ایک اور بوجھ ڈال دیا گیا-پورے ملک کو ٹیکے لگاؤ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بزرگ ویکسین لگوانے کے لیے ان ہی اسپتالوں میں جانے کے لیے مجبور تھے، جو کورونا انفیکشن کے لحاظ سے سب سے حساس جگہ کہے جاسکتے ہیں۔

یہاں ایک اور چیز یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ جب اس مہم کا خاکہ تیار ہوا، تب مرکز میں نرسمہاراؤ کی حکومت تھی۔ حکومت کس کی تھی، یہ زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد مرکز میں ایچ ڈی دیوی گوڑا، اندرکمارگجرال، اٹل بہاری واجپئی، منموہن سنگھ کی حکومتیں آئیں، لیکن اس مہم میں کسی طرح کی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ اس مہم سے متعلق کچھ کمیونٹیز کو اندیشہ میں ڈالنے کی کوششیں بھی ہوئیں، لیکن نہ تو سیاسی طور پر کسی نے اس اندیشے کو کیش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے خلاف کسی نے تلواریں نکالیں۔ جب کہ ہمارا ایک پڑوسی ملک اس اندیشے پر پیدا ہوئی کشیدگی کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ ہندوستان کی کامیاب پلس پولیو مہم یہ بتاتی ہے کہ اگر ضرورت سے زیادہ تشہیر اور کریڈٹ لینے کی جلدبازی نہ ہو تو بہت ساری چیزوں کو پارٹی سیاست سے بچایا جاسکتا ہے۔
پلس پولیو مہم کی سب سے بڑی خاصیت تھی، اسے نافذ کرنے کا طریقہ۔ پہلے کی طرح یہ نہیں ہوا کہ ایک پروگرام بنا اور اسے سرکاری یا غیرسرکاری ہیلتھ سسٹم کے حوالہ کردیا گیا۔ حکومت یہ کہہ سکتی تھی کہ اسے سرکاری اسپتالوں اور پرائمری ہیلتھ سینٹروں کے ذریعہ پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو پہلے سے ہی ہولناک طور پر ناکافی صحت عامہ کے نظام (Public health system)پر اضافی دباؤ ہوتا۔ اس کے بجائے پوری دنیا سے مل رہی ان سفارشات کو قبول کیا گیا، جو کہہ رہی تھیں کہ پولیو خاتمہ کے لیے ایک الگ سسٹم بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ جلد ہی اس مہم کے لیے 12لاکھ ویکسی نیٹرس اور 1.8انسپکٹر مقرر کیے گئے، جنہیں ٹریننگ کے بعد بچوں کو پولیو ڈراپ دینے کے لیے پورے ملک میں تعینات کردیا گیا۔
ویسے، پورے ہیلتھ سسٹم سے الگ صبح سے شام تک صرف ویکسین دینے کے لیے لوگوں کو مقرر کرنے کا یہ طریقہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ پلس پولیو مہم میں نہیں اپنایا گیا۔ ملک میں جدید ویکسین کی تاریخ ہی اسی سے شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے جو ویکسین لوگوں کو لگائی گئی، وہ چیچک کی تھی۔ 1802 میں جب یہ ویکسین ہندوستان پہنچی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے پہلے سے ہی اس کے لیے ملک میں ویکسی نیٹرس مقرر کرکے انہیں ٹیکہ لگانے کی ٹریننگ دے دی تھی۔
یہ وہ طریقہ تھا جو کورونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے آسانی سے اپنایا جاسکتا تھا۔ ہندوستان میں اس کی ٹیکہ کاری کی حکمت عملی بنانے کی باتیں گزشتہ سال ستمبر سے ہی شروع ہوگئی تھیں۔ تبھی یہ بھی صاف ہوگیا تھا کہ یہ ٹیکہ ہمیں دسمبر کے بعد ہی دستیاب ہوسکے گا۔ یعنی اس درمیان کافی وقت تھاجب لوگوں کو مقرر کرکے انہیں ٹریننگ دی جاسکتی تھی۔ لیکن اس کام کو اس سرکاری اور پرائیویٹ ہیلتھ سسٹم کے حوالہ کرنا ہی بہتر سمجھا گیا، جو کووڈ مریضوں کی مسلسل بڑھتی تعداد کے سبب پہلے سے دباؤ میں تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کی ٹیکہ کاری حکمت عملی کو اس ملک میں بھی جوں کا توں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جہاں مریضوں کے لیے اسپتالوں میں بستر دستیاب نہیں تھے، نہ مناسب وینٹی لیٹر تھے اور نہ ہی آکسیجن سلنڈر۔ ملک میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کے چرچے تو کووڈ دور کی شروعات سے ہی ہورہے ہیں اور اب ان ہی سب کے کندھوں پر ایک اور بوجھ ڈال دیا گیا-پورے ملک کو ٹیکے لگاؤ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بزرگ ویکسین لگوانے کے لیے ان ہی اسپتالوں میں جانے کے لیے مجبور تھے، جو کورونا انفیکشن کے لحاظ سے سب سے حساس جگہ کہے جاسکتے ہیں۔
اس وجہ سے کتنے لوگوں کے لیے مسئلہ پیدا ہوا، ہم یہ ٹھیک سے نہیں جانتے، لیکن ان سب سے بچا جاسکتا تھا، اگر ٹیکہ کاری کی حکمت عملی ملک کی صورت حال اور ہیلتھ سسٹم کی سچائیوں کو قبول کرتے ہوئے بنائی گئی ہوتی یا پلس پولیو جیسی سابقہ مہموں سے کچھ سبق ہی لے لیا گیا ہوتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS