امیش پرتاپ سنگھ
کورونا کی دوسری لہر میں متعدد ریاستوں نے جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کیا۔ دوتہائی سے زیادہ ہندوستان میں مکمل لاک ڈاؤن تھا جو کہ ملک کے 90فیصد سے زائد جی ڈی پی کے لیے ذمہ دار ہے۔ یقینا اس کا منفی اثر ہوا اور بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لیکن معاشی سرگرمیوں میں سستی 2020کے لاک ڈاؤن کی طرح نہیں ہے اور امکان یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد تیزی سے بہتری ہوگی۔ اوپر کی جانب چڑھتا شیئر بازار شاید اسی کی جانب اشارہ کررہا ہے۔
اپریل اور مئی میں حالات کافی خراب ہوئے ہیں۔ حکومت کے ذریعہ 31مئی کو جاری اعدادوشمار کے مطابق 2020-21میں جی ڈی پی میں 7.3فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ یہ بہتر اندازہ ہے۔ جنوری-مارچ کی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 1.6فیصد کا اضافہ ہوا۔ کووڈ کی دوسری لہر کے سبب ایسا اندازہ ہے کہ 2021-22میں معیشت میں 8سے 9.5فیصد کے اضافہ کی شرح رہے گی۔ زیادہ تر بین الاقوامی ایجنسیوں اور گھریلو اداروں نے اپنے جی ڈی پی کے اندازے میں ترمیم کرکے یہی اندازہ لگایا ہے۔
سی ایم آئی ای کے مطابق تقریباً ایک کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چلی گئی ہیں اور تقریباً 97فیصد کنبوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020-21میں گزشتہ برس کے مقابلہ میں تقریباً 17لاکھ کم روزگار جڑے۔ صاف ہے کہ معیشت میں نئے روزگار پیدا نہیں ہورہے ہیں۔
زراعت کے شعبہ کے اچھے مظاہرہ کے باوجود دیہی علاقوں میں بھی لوگ پریشان ہیں۔ معاشی بہتری کو رفتار دینے کے لیے اس وقت ڈیمانڈ اور کھپت انتہائی اہم ہیں۔ خاص طور سے سرکار ٹیکسوں کو آسان بنانے کے ذریعہ سے معیشت میں ڈیمانڈ اور کھپت کی سطح کو بڑھا سکتی ہے۔ عوامی سرمایہ کاری کے ذریعہ سے روزگار پیدا کرنے اور لوگوں کو نقدی اور اشیا کی شکل میں مدد دے سکتی ہے۔ اس سے معیشت میں ڈیمانڈ بڑھے گی، ڈیمانڈ سے متعلق غیریقینی صورت حال دور ہوگی، نجی سرمایہ میں اضافہ ہوگا اور معیشت چل پڑے گی۔
ہندوستان میں مسئلہ یہ ہے کہ آمدنی اور املاک کی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ کووڈ-19کا سب سے زیادہ بوجھ کمزور طبقہ پر پڑا ہے۔ یہی طبقہ معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور بیمار یا انفیکٹڈ ہونے پر اس کی حالت مزید خراب ہوتی ہے۔ ہیلتھ انشورنس کے ساتھ ساتھ حکومت کی متعدداسکیمیں ہیں جو ان کی کچھ بنیادی ضرورتیں کچھ حد تک پورا کرتی ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ ان کے روزگار کا ہے۔ منریگا کے تحت حکومت ایک بڑے طبقہ کو روزگار بھی مہیا کرتی ہے۔ معاشرہ کے اس پسماندہ 70فیصدلوگوں کی معاشی حالت کو کس طرح بہتر کیا جائے، انہیں معاشی خوشحالی کی مین اسٹریم سے کس طرح جوڑا جائے، یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ معاشرہ کے اعلیٰ سطح کے ایک تہائی عوام کے کھپت کے مطالبات (Consumption demands) ابھی رکے ہوئے ہیں اور حالات معمول پر آتے ہی اس ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ لیکن کیا یہ ڈیمانڈ اتنی بڑی ہوگی کہ اس کا فائدہ معاشرہ کے 70فیصد لوگوں تک بھی پہنچے گا۔ ان کے بھی روزگار اور آمدنی میں اضافہ ہوگا! سب سے بڑا سوال یہی ہے۔
کورونا کی پہلی لہر کے بعد سے ہی لوگوں کی آمدنی میں غیریقینی صورت حال کے سبب اور ایمرجنسی ضرورتوں کے لیے سیونگ میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ غیرضروری سامان کم خرید رہے ہیں اور بحران کے وقت کے لیے سیونگ میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس وقت زیادہ تشویش سپلائی کی طرف سے نہیں، ڈیمانڈ کی طرف سے ہے۔ صحت سے متعلق غیریقینی کیفیت کے سبب، آمدنی بڑھنے پر بھی ڈیمانڈ میں تیزی سے اضافہ کے امکان کم ہیں۔ ایسے میں نجی سرمایہ کاری میں اضافہ میں وقت لگ سکتا ہے۔
لاک ڈاؤن میں ڈھیل کے بعد بے روزگاری کی شرح میں کچھ کمی آنے کی امید ہے، لیکن جب تک سبھی لوگوں کو ٹیکے نہیں لگ جاتے تب تک غیریقینی صورت حال قائم رہے گی۔ اگر ٹیکہ کاری کی رفتار تیز نہیں ہوپائی تو یہ معیشت کے لیے آگے چل کر رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ہمارے ہیلتھ انفرااسٹرکچر کا کھوکھلاپن ظاہر ہوچکا ہے، بالخصوص گاوؤں میں ہیلتھ انفرااسٹرکچر پوری طرح خستہ حال ہے، جسے کچھ ماہ میں درست کرپانا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں اگر کووڈ-19کا کوئی اور تگڑا جھٹکا آتا ہے تو یہ معیشت کے لیے بھی مہلک ہوسکتا ہے۔
عالمی تیزی کے سبب صارفین کی اشیا (consumer goods) کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کچے تیل کی قیمت گزشتہ 7ماہ میں 60فیصد بڑھی ہے۔ کنزیومر گڈس کی قیمتوں میں 20سے لے کر 50فیصد تک کا اضافہ کچھ ماہ میں ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ لبرل مانیٹری پالیسی اور کمزور ڈالر کے سبب بھی کنزیومر گڈس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کچے تیل اور دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ سے اگر افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ معیشت کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔ یہ بہت کچھ عالمی اشاروں اور سرگرمیوں پر منحصر کرتا ہے کہ کنزیومر گڈس کی قیمتیں کس حد تک کنٹرول میں رہتی ہیں۔ آنے والے مہینوں میں معیشت کی رفتار انہی کچھ اہم حقائق پر منحصر ہوگی۔
حکومت کی مانیٹری پالیسی پہلے سے ہی کافی لبرل ہے۔ شرح سود اپنی کم سے کم سطح پر ہیں۔ مہنگائی بھی لمبے عرصہ تک پانچ فیصد کے اندر برقرار رہی ہے، لیکن اس وقت یہ دس فیصد کئی برسوں کی اعلیٰ سطح پر ہے۔ ایسے میں اسے اور لبرل بنانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی اس وقت جب کہ لوگ، کاروبار، بینک سبھی کی سرگرمیاں اپنی کم سے کم سطح پر ہیں تو مانیٹری پالیسی کا اثر کافی کم ہوجاتا ہے۔ صحت اور آمدنی کے بحران کے درمیان غیریقینی صورت حال اور کم ہوئے صارفین کے اعتماد کے سبب نہ تو ڈیمانڈ قائم رہ سکتی ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری۔زراعت کے شعبہ کے اچھے مظاہرہ کے باوجود دیہی علاقوں میں بھی لوگ پریشان ہیں۔ معاشی بہتری کو رفتار دینے کے لیے اس وقت ڈیمانڈ اور کھپت انتہائی اہم ہیں۔ خاص طور سے سرکار ٹیکسوں کو آسان بنانے کے ذریعہ سے معیشت میں ڈیمانڈ اور کھپت کی سطح کو بڑھا سکتی ہے۔ عوامی سرمایہ کاری کے ذریعہ سے روزگار پیداکرنے اور لوگوں کو نقدی اور اشیا کی شکل میں مدد دے سکتی ہے۔ اس سے معیشت میں ڈیمانڈ بڑھے گی، ڈیمانڈ سے متعلق غیریقینی صورت حال دور ہوگی، نجی سرمایہ میں اضافہ ہوگا اور معیشت چل پڑے گی۔
-سب سے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلد سے جلد جنگی پیمانہ پر اس سال کے آخر تک کم سے کم 80فیصد لوگوں کو ٹیکے لگوانا۔ اس سے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
-حکومت کو دوسری لہر کے اثر کے ختم ہونے تک معاشرہ کے کم آمدنی والے گروپ کے لوگوں کو مفت اناج کی تقسیم کرتے رہنا چاہیے۔
-منریگا کے تحت جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں، انہیں گاؤں میں روزگار ملے۔
اگر انفیکشن کے ڈر سے منریگا کے تحت کام کرانے کی حالت نہیں پیدا ہوتی ہے تو ایسے میں لوگوں کو نقدرقم کی منتقلی(ٹرانسفر) دوسرا طریقہ ہے۔ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت کارڈ صارفین کو نقدرقم ٹرانسفر ہوسکتی ہے۔
-ہیلتھ انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنا ضروری ہے۔ اس وقت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو صحت پر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف صحت سہولتیں بہتر ہوں گی، بلکہ بڑے پیمانہ پر روزگار بھی پیدا ہوں گے۔ یہ معیشت میں ایک نئے طرح کا اعتماد پیدا کرے گا۔
-سب سے بڑی فکر سب سے بڑے روزگار مہیا کرانے والے سیکٹر-درمیانی اور چھوٹے پیمانہ کی صنعتوں-کے تعلق سے ہے، جس میں تقریباً 6.5کروڑ کمپنیاں ہیں اور جن کا ہندوستان کی جی ڈی پی میں تقریباً 30فیصد اور برآمدات میں تقریباً 40فیصد کا تعاون ہے۔ انہیں حکومت کی مالی مدد کی ضرورت ہوگی، جس سے کہ وہ قرض کے دلدل میں نہ پھنسیں۔
-ہاؤسنگ، رئیل اسٹیٹ، میڈیا، ہوٹل، ایوی ایشن جیسی صنعتوں کو راحت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑے پیمانہ پر روزگار دینے والے شعبے ہیں۔
-اس غیرمتوقع بحران کے وقت حکومت کو اپنے بجٹ خسارہ کی فکر نہ کرکے ڈیمانڈ اور سپلائی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر نئے نوٹ چھاپنا چاہیے۔
جیسے جیسے سپلائی میں حائل رکاوٹیں ختم ہوں گی، سپلائی چین ہموار ہوگی، کچے مال اور اِن پٹس کی سپلائی کے مسائل ختم ہوں گے، ویسے ہی قیمتیں عام سطح پر آجائیں گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)