انڈیا کی ریاست اترپردیش میں پچھلے دو ہفتوں سے جس طرح سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس اور بی جے پی کے مرکزی قائدین کی میٹنگیں جاری ہیں اس سے یوپی کی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔
حکومت اور تنظیم میں تبدیلی کے امکانات کے درمیان قیادت کی تبدیلیوں پر بھی دونوں سطحوں پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ تاہم ماہرین کو اس کے باوجود کسی بڑی تبدیلی کی امید نظر نہیں آ رہی۔
اس سب کے درمیان یوپی کی سیاست میں ایک اہم نام پھر سے منظرعام پر آگیا جو چار مہینے پہلے یو پی کی سیاست میں متعارف ہوا تھا۔
ان کے ذریعہ بھی بڑی تبدیلی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ نام اروند کمار شرما کا ہے جو سابقہ سینیئر سرکاری افسر ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔
اروند کمار شرما کون ہیں؟
اروند کمار شرما نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے ہی اس سال جنوری میں استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس کے بعد وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی نے انہیں قانون ساز کونسل کے ذریعہ ایوان میں بھیج دیا۔
اس کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ریاستی حکومت میں ایک ‘بڑی تبدیلی’ کی تیاری کی جارہی ہے۔
سیاسی مبصرین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اروند شرما کو وزیر اعلیٰ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم ان کے نائب وزیر اعلیٰ یا وزارتِ داخلہ جیسے اہم محکموں کے ساتھ کابینہ کے وزیر بننے کی قیاص آرائیاں زیادہ معتبر انداز میں کی جا رہی ہیں۔
درمیان میں اروند کمار شرما
اس خیالی تبدیلی کی وجہ براہ راست بتائی گئی کہ اس کا مقصد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے یا مبینہ طور پر ان کے کام کرنے کے من مانے انداز کو روکنا ہے۔
لیکن چار ماہ گزر جانے کے باوجود ، اروند شرما کو نہ تو وزیروں کی کونسل میں جگہ دی گئی اور نہ ہی کسی اور اہم ذمہ داری کوسونپی گئی
یوگی نے مودی کو براہ راست چیلنج کیا؟
یوپی میں بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ‘وزیر اعلی نے واضح طور پر کہ دیا ہے کہ اروند شرما کو کوئی اہم محکمہ تو کیا کابینہ کا وزیر بنانا بھی مشکل ہے۔ ریاستی وزیر سے زیادہ وہ انھیں کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے اس اقدام کو وزیر اعظم نریندر مودی کو براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ ‘پارٹی کی مرکزی قیادت اکثر یوگی آدتیہ ناتھ کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ وہ کس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں اور موقع ملنے پر یوگی آدتیہ ناتھ بھی یہ جتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ نریندر مودی کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے وہ واحد امیدوار ہیں۔
بی جے پی کے بہت سے رہنما بھی اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ اکثر لوگ یوگی آدتیہ ناتھ کو مودی کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں یا سوشل میڈیا یا کچھ چھوٹی تنظیمں کا جانب سے چلائی جانے والی مہم میں یوگی کے قریبی لوگوں کا ہاتھ ہے جس میں ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں ‘وزیراعظم کیسا ہو ، یوگی آدتیہ ناتھ جیسا ہو’
کورونا وبا کے دوران یوگی کی کارکردگی اور رویے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں
یوگی کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے؟
سینئر صحافی یوگیش مشرا یوگی کی طاقت کے پیچھے آر ایس ایس کی حمایت بتاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘اتر پردیش ایک بڑی ریاست ہے۔ یہاں کے وزیر اعلیٰ اپنے آپ کو اگلے وزیر اعظم کی حیثیت سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ چاہے وہ علاقائی پارٹیوں کے رہنما ہوں یا بی جے پی کے ۔ دوسری بات یہ کہ سنگھ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ہے۔ تمام احتجاج کے باوجود سنگھ کہ وجہ سے ہی وہ وزیر اعلیٰ بنے تھے اور آج بھی وہ سنگھ کی پسند ہیں۔ اروند شرما کو پیراشوٹ کی طرح یہاں بھیجنے کا اقدام آر ایس ایس کی نظر میں مناسب نہیں ہے’۔
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی حکومت اب اپنی مدت پوری کرنے والی ہے لیکن ریاست میں براہ راست وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا کی بات پچھلے چار سالوں میں کبھی نہیں سامنے آئی جتنے یہ اندیشے آج ظاہر کیے جا رہےہیں یا یوں کہا جائے کہ اس طرح کی گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی تھی۔
چاہے یہ امن و قانون کی صورتِ حال پر حکومت پر سوال اٹھانے کا معاملہ ہو یا بی جے پی کے ناراض ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد کے اسمبلی میں دھرنے پر بیٹھے رہنے کا مسئلہ ۔
یوگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے
سینئر صحافی سدھارتھ کلہنس کا کہنا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں یہ پہلا موقع ہے جب کچھ وزراء کو انفرادی طور پر بلایا جارہا ہے اور آر ایس ایس اور بی جے پی کی تنظیمی میٹنگوں میں ان کی رائے لی جارہی ہے۔
ان کے بقول ‘یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وزراء اور ممبران اسمبلی کی جس طرح کی شکایات تھیں انھیں کبھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی صرف چند منتخب افسران پوری حکومت چلا رہے ہیں لہذا یہ بات یقینی ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے کام کرنے کا انداز پر سنگھ کے ساتھ ساتھ بی جے پی میں بھی غور شروع ہوچکا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے بھی اپنی طاقت کا احساس کرایا جاتا رہا ہے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ بی جے پی یوگی کو ہٹا بھی نہیں پا رہی ہے اور انکی قیادت میں اگلا الیکشن لڑنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی۔
ناخوشی کی کیا وجہ ہے؟
بی جے پی میں کوئی بھی رہنما یا ترجمان اروند شرما معاملے میں یوگی آدتیہ ناتھ کے رویہ کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن سب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ پارٹی کے اندر سب ٹھیک نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ناراضگی ظاہر کرنے والے وزراء اور ممبران اسمبلی بھی اس معاملے پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں لیکن اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بہت کچھ بول بھی جاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک ایم ایل اے نے کہا ‘کووڈ کے دوران مرکزی قیادت ریاستی حکومت کے طرز عمل سے بہت ناخوش ہے۔ عوامی سطح پر اگرچہ اس واقعہ کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس کے بعد کے اجلاس اسی رویے کا نتیجہ ہیں۔ پنچایت انتخابات کے نتائج کے سبب بھی یوگی بیک فوٹ پر ہیں۔
مرکزی قیادت یوگی کی قیادت میں اگلے ریاستی الیکشن لڑنے میں ہچکچا رہی ہے
پچھلے ہفتے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ دتہ تریہ ہسبالے بھی یوپی کی سیاسی نبض کا اندازہ لگانے لکھنؤ آئے تھے۔ اس سے تین دن پہلے، دتہ تریہ ہسبالے نے دہلی میں اترپردیش کے سیاسی ماحول پر بات چیت کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا سے ایک اہم ملاقات کی تھی۔
اس اجلاس میں یوپی بی جے پی تنظیم کے وزیر سنیل بنسل نے بھی شرکت کی۔ اس اہم اجلاس میں نہ تو چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور نہ ہی بی جے پی صدر سواتنتر دیو سنگھ کو یوپی کی سیاست پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اگر ماہرین پر یقین کیا جائے تو سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ بات بری لگی تھی۔
یوگی ادتہ ناتھ کتنے طاقتور ہیں؟
تاہم سینئر صحافی یوگیش مشرا کا کہنا ہے کہ فی الحال یوگی مرکزی قیادت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں چاہے وہ کتنی بھی کوشش کرلیں۔
یوگیش مشرا کا کہنا ہے ،’یوگی نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے وہ ایک نامزد امیدوار ہیں۔ سی ایم کی کرسی انھیں دی گئی ہے ان کے نام پر الیکشن نہیں جیتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پارٹی عہدیدار بھی نہیں تھے۔ اسی وجہ سے وہ مرکزی قیادت لیے ایک چیلنج نہیں ہیں۔ ‘مرکزی قیادت کی پریشانی یہ ہے کہ اگر 2022 میں یوپی انتخابات ہار گئے تو اس کا اثر سال 2024 میں ہونے والے لوک سبھا یعنی عام انتخابات پر بھی پڑے گا۔ مغربی بنگال میں شکست کے بعد یہ ڈر اب زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت اسمبلی انتخابات میں کوئی بھی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی’۔
تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے حق میں نہ تو بہت سے ایم ایل اے ہیں اور نہ ہی وزیر ہیں اور نہ ہی سنگھ ان کے ساتھ اتنی مضبوطی سے کھڑا ہے کہ اسے ہر حال میں کا ساتھ دے۔’
سنگھ کے عہدیداروں کو افسر شاہی کے بارے میں وہی شکایات ہیں جتنی پارٹی کے ایم ایل اے کو ہیں۔ مبصرین کے مطابق پارٹی اور سنگھ ملاقاتوں کے ذریعے اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یوگی کو ہٹانے سے کتنا نقصان ہوسکتا ہے اور اس نقصان کی تلافی کیسے کی جاسکتی ہے؟
سدھارتھ کلہنس کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا سب سے مضبوط پہلو یہ ہے کہ ان پر بدعنوانی کے ذاتی الزامات نہیں ہیں اور نہ ہی کسی بھی اور طرح کے ذاتی الزامات ہیں۔ ان کے مطابق اس مضبوط پہلو کے سامنے اور بھی بہت سی کمزوریاں دفن ہو جاتی ہیں۔