یوگیندر یادو
ادھر حکومت اپنی ساتویں سالگرہ منانے کی پھوہڑ کوشش کررہی تھی، ادھر گزشتہ سال میں معیشت کا سات کا عدد اس کا منھ چڑھارہا تھا۔ ادھر ملک کورونا کے اندھے کنویں سے باہر نکلنے کی امید لگارہا تھا، ادھر معیشت کی کھائی اس کا انتظار کررہی تھی۔ گزشتہ کچھ دنوں میں عام ہوا یہ سات کا عدد ملک کی بدحالی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ بس اس کا ایک ہی قصور ہے اور وہ یہ کہ یہ اس سسٹم کی سچی کہانی بیان کرتا ہے۔
پہلے اعدادوشمار: گزشتہ برس ملک میں معاشی نمو کے بجائے منفی7.3کی کمی واقع ہوئی(ذریعہ:حکومت ہند)۔ چار دہائیوں کے بعد پہلی بار معیشت الٹے قدم چلی۔بیشک اس کی وجہ کورونا کی پہلی لہر اور لاک ڈاؤن تھا ، لیکن یہ تو باقی دنیا میں بھی تھی۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں کساد بازاری کی مار زیادہ تیز رہی۔ کچھ سال پہلے دنیا کی سب سے تیز رفتار سے معیشت میں اضافہ کرنے والی ہماری معیشت اب معاشی اضافہ کی رینکنگ میں142ویں نمبر پر آگئی ہے۔ جب سے نومبر2016میں نوٹ بندی نافذ کی گئی ، اس وقت سے اب تک ملک کی فی شخص کی اصل آمدنی میں صفرفیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار کورونا کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے کے تھے۔ یعنی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
دوسرے اعداد و شمار: گزشتہ سال معاشی سرگرمیوں میں کل سرمایہ کاری 10.8فیصد کم ہوئی(ذریعہ: حکومت ہند)۔ آزادی کے بعد سے کسی بھی ایک برس میں سرمایہ کاری کو اتنا بڑا دھکا کبھی نہیں پہنچا ہے۔ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کا خرچ بھی کم ہوا ہے۔ بس صرف حکومت کے خرچ میں اضافہ ہوا ہے۔
گـزشـتـہ مـاہ افـراط زر کا ہـول سـیـل انـڈیـکـس10.5فـیـصـد ہـوچـکا تـھـا(ذریـعـہ: حکومت ہـنـد)۔ مـہـنـگائــی پـر لـگام لـگانـے کـو یـہ حکومت اپنـی حـصـولـیـابـیـوں مـیـں سے ایک شـمار کـرتـی رہـی ہـے۔ اب اس مـیـں بھـی خطرے کـی گھنٹـی بـج چکـی ہـے۔ غنیمت یـہ ہـے کـہ مہنگائـی کا صـارفـیـن کا انڈیکس فـی الـحال 6فـیصـد سـے نیچـے ہـے لـیـکن اس میں بھـی مسلسل اضـافـہ ہـوا ہـے، خـاص طـور پـر اشیائـے خـوردونـوش مـیـں۔ یـعنـی کـہ غریبـی میں آٹـا گیلا والـی صورت حـال آسکتـی ہـے۔
تیسرے اعداد و شمار: غالباً پہلی مرتبہ حکومت نے اپنی آمدنی کے مقابلہ میں دوگنا سے زیادہ خرچ کیا ہے (ذریعہ: حکومت ہند)۔ گزشتہ سال حکومت کی کل آمدنی 16.3لاکھ کروڑ روپے تھی جب کہ اس کا کل خرچ35.1لاکھ کروڑ روپے ہوا۔ کل خسارہ 18.8لاکھ کروڑ کا تھا، ہماری جی ڈی پی کا 9.2فیصد ۔ اس میں کچھ برا نہیں ہے۔ کسادبازاری کے وقت حکومت کو کھلے ہاتھ سے خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت کے پاس دوسری لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے پیسہ نہیں بچا ہے۔
چوتھے اعداد و شمار: مئی 2021 میں بے روزگاری کی شرح 11.9 فیصد ہوگئی ہے(ذریعہ: سی ایم آئی ای)۔ اگر پہلے لاک ڈاؤن کے گزشتہ سال اپریل-مئی کو چھوڑ دیا جائے تو ملک میں اتنی زیادہ بے روزگاری کبھی نہیں دکھی ہے۔ شہری علاقوں میں بے روزگاری تقریباً 15فیصد چھو رہی ہے۔ اگر بے روزگاری کو وسیع معنی میں دیکھیں تو ملک میں یہ شرح 18فیصد کے قریب ہوگی۔ یعنی اس وقت ملک میں5.2سے 8کروڑ تک بے روزگار ہیں۔
پانچویں اعدادوشمار: گزشتہ ماہ افراط زر کا ہول سیل انڈیکس10.5فیصد ہوچکا تھا(ذریعہ: حکومت ہند)۔ مہنگائی پر لگام لگانے کو یہ حکومت اپنی حصولیابیوں میں سے ایک شمار کرتی رہی ہے۔ اب اس میں بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ مہنگائی کا صارفین کا انڈیکس فی الحال 6فیصد سے نیچے ہے لیکن اس میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر اشیائے خوردونوش میں۔ یعنی کہ غریبی میں آٹا گیلا والی صورت حال آسکتی ہے۔
چھٹے اعداد و شمار: معیشت میں اعتماد کا اشاریہ گرتے گرتے اب 48سے نیچے آگیا ہے(ذریعہ: سی ایم آئی ای)۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے ذریعہ مستقل طور پر جاری انڈیکس کا مطلب ہے کہ اگر دسمبر 2015میں 100لوگوں کو مستقبل میں اپنی آمدنی بہتر ہونے کا یقین تھا تو اب وہ تعداد48ہوگئی ہے۔ تقریباً وہیں جہاں گزشتہ سال مئی-جون میں تھی۔ یعنی عام طور پر مستقبل کے تئیں امیدافزا ہندوستانیوں کی امید ختم ہورہی ہے۔
ساتویں اعدادوشمار: اسی ایک سال میں ملک میں ڈالر ارب پتیوں کی املاک تقریباً دوگنی ہوگئی(ذریعہ: فاربس)۔ گزشتہ سال کی شروعات میں 100کروڑ ڈالر(تقریباً 7300کروڑ روپے) سے زیادہ املاک رکھنے والوں کی تعداد102تھی۔ وبا کا سال ختم ہوتے ہوتے یہ تعداد 140ہوگئی اور ان کی کل جمع املاک 43لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہوگئی۔ صرف ایک سال میں مکیش امبانی کی کل املاک 2.6سے بڑھ کر 6.2لاکھ کروڑ روپے ہوگئی، جب کہ گوتم اڈانی کی املاک صرف 58ہزار کروڑ سے بڑھ کر 3.7لاکھ کروڑ روپے ہوگئی۔ اس دوران سنسیکس بھی خوب چڑھا۔
ان ساتوں اعدادوشمار کو آپ باقی چھ کے ساتھ جوڑ کر دیکھ لیجیے اور آج کے ہندوستان کی پوری تصویر دیکھ لیجیے۔ ملک بدحال ہورہا ہے، حکومت کنگال ہورہی ہے، عوام بے روزگاری جھیل رہے ہیں، اوپر سے مہنگائی کی مار برداشت کررہے ہیں۔ لیکن ملک کی بربادی کے اس منظر کے درمیان کچھ دھنا سیٹھ مالا مال ہوئے جارہے ہیں۔ ملک پوچھتا ہے: کہیں ان دونوں کے تار تو نہیں جڑے؟ ملک کی اس آفت میں ارب پتیوں کے لیے مواقع پیدا کرنے والے کون ہیں؟
[email protected]