صبیح احمد
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدہ ’پیرس کلائمیٹ ڈیل 2015‘ میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کو دنیا بھر کے ماحولیات کے ماہرین امید افزا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ جان لیوا کووڈ19- وبا کے سبب عالمی سطح پر دیگر سنگین اور تباہ کن مسائل پر لوگوں کی توجہ ایک طرح سے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مسائل بھی فوری توجہ کے طالب ہیں۔ خاص طور پر ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کا مسئلہ تو بنی نوع انسان کے لیے فوری طور پر حل طلب ہے کیونکہ یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ بہرحال امریکہ کی واپسی سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے میں کتنی مدد ملے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا طے ہے کہ امریکہ کی واپسی سے اس سلسلے میں جاری مہم کی فنڈنگ کو بڑی حد تک تقویت ضرور ملے گی۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 2017 میں اقتدار سنبھالتے ہی دیگر عالمی معاہدوں سے علیحدگی کے ساتھ ساتھ پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے بھی امریکہ کو الگ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ وہ ماحولیات کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے سائنس دانوں کے دعوؤں کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جس کا خمیازہ ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں جاری مہم کو بڑے پیمانے پر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ رواں برس فروری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد پیرس معاہد ہ میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی خبردار کیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کی بقا کو درپیش انتہائی سنگین خطرہ ہیں جن کے حل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مسئلہ سے نمٹنے میں ناکام ہوگئے تو دنیا کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی ہو گی۔
سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجۂ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں۔ اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجۂ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سلسلے میں 2021 کا سال ایک فیصلہ کن سال ثابت ہو سکتا ہے۔
انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ ماہرین نے اگلے 5 سال میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ موسمیات کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 40 فیصد یہ امکان موجود ہے کہ اگلے 5 برسوں میں دنیا کا درجہ حرارت اس حد سے آگے بڑھ جائے گا جس سے آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدہ کے ذریعہ بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موسمیاتی ماہرین کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ پیش گوئی میں کہا ہے کہ دنیا میں 2025 کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا امکان 90 فیصد ہے۔ اور یہ کہ بحر اوقیانوس میں آئندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سال شمالی نصف کرئہ ارض پر خشکی کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے 1.4 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہو گا جو تقریباً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔ امریکہ کے جنوب مغربی حصوں میں خشک سالی جاری رہے گی۔ 40 فی صد امکان یہ ہے کہ اگلے 5 برسوں میں کم ازکم ایک سال ایسا ہو سکتا ہے جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔ حالانکہ گزشتہ سال ماہرین کی ایک ٹیم نے اپنی پیش گوئی میں کہا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کا امکان تقریباً 20 فیصد ہے۔ دعویٰ کے مطابق یہ تقریباً یقینی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں کرئہ ارض کم از کم ایک بار پیرس معاہدہ میں گرمی کی مقرر کردہ حد سے آگے نکل جائے گا۔
کرئہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ دنیا بھر میں موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام نے دعویٰ کیا ہے کہ شدید موسمی حالات اور کووڈ19- وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے صرف وسطیٰ امریکی ممالک میں تقریباً 80 لاکھ افراد بھوک اور قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ سے کرئہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارش اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔ قحط کی وجہ سے خاص طور پر یمن میں لاکھوں بچوں کے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے جنوری میں کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ لاطینی امریکہ میں تقریباً 15 لوگ دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ٹھوس منصوبہ بندی کر چکے ہیں جہاں انہیں خوراک دستیاب ہو۔
گلوبل وارمنگ سے متعلق پیرس معاہدہ میں 2050 تک کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح صفر پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو معاہدہ سے نکالنے کے بعد اس ہدف کا حصول نہ صرف مشکل ہو گیا تھا بلکہ یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ سے موسموں کی شدت جانی اور مالی نقصانات میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال بائیڈن انتظامیہ نے پیرس معاہدہ میں واپسی کا اعلان کر دیاہے جسے عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے امریکہ کی پیرس معاہدہ میں واپسی کو سراہتے ہوئے اسے آب و ہوا میں تبدیلی کو روکنے کے سلسلے میں اہم پیش رفت اور امید کا موقع قرار دیا ہے۔ امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے آب و ہوا جان کیری کا بھی کہنا ہے کہ امریکہ پر عزم طریقے سے اس معاہدہ میں واپس آیا ہے۔ بہرحال انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ محض پیرس معاہدہ پر عمل درآمد ہی نہیں بلکہ سائنس کے مطابق سب کو مل جل کر اس اہم مسئلہ پر کام کرنا ہو گا اور یہ کہ اس وقت کوئی بھی براعظم یا کوئی بھی ملک انفرادی طور پر یہ کام انجام نہیں دے پا رہا ہے۔ آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ نے بھی اس سلسلے میں موجودہ کوششوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مناسب اقدامات کرنے میں مزید تاخیر کرئہ ارض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئتریس نے بجا طور پر موجودہ صورتحال کو دنیا کے لیے ’ریڈ الرٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عالمی ایمرجنسی کا مقابلہ کرنے میں 2021 کا سال بنانے یا بگاڑنے کا سال ثابت ہو گا۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجۂ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں۔ اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجۂ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سلسلے میں 2021 کا سال ایک فیصلہ کن سال ثابت ہو سکتا ہے۔
[email protected]