…..عباس دھالیوال
ایران میں آیت اللہ خمینی کے زیر قیادت 1979 میں آئے انقلاب کے بعد بادشاہت کے باب کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد ایران کے ریاستی اور حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی اور آیت اللہ خمینی نے رہبر کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ ایران میں سپریم لیڈر کا عہدہ سب سے اہم ہے۔ ملک کے آئین کے مطابق، سپریم لیڈر کا انتخاب مجلس خبرگان یا ’اسمبلی آف ایکسپرٹس‘ نامی کونسل کرتی ہے جس کے 88 ارکان ہوتے ہیں۔ ہر 8 سال بعد اس کونسل کے ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، البتہ سپریم لیڈر کے عہدے کی مدت تاحیات ہے۔
ایران میں اس سال 18 جون کو صدارتی انتخاب منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ وہاں کے آئین میں صدارتی امیدوار کے لیے بیان کی گئی چند بنیادی شرائط کے علاوہ انتخابی قوانین میں بھی امیدواروں کے لیے کئی دیگر شرائط ہیں جن کا تعین شوریٰ نگہبان کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایران کے سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلیٰ کی ہدایت پر شوریٰ نگہبان صدارتی امیدواروں کے لیے قواعد و ضوابط جاری کرنے کی مجاز ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اس سال یکم مئی کو شوریٰ نے کچھ ترامیم کے ساتھ نئے ضوابط جاری کیے ہیں۔ گارڈین کونسل یعنی شوریٰ نگہبان کے حوالے سے ترجمان عباس علی نے کہا کہ صدارتی انتخاب لڑنے کے خواہش مند 590 امیدواروں میں سے صرف 7 امیدواروں کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران میں سب سے طاقتور و بااختیار شوریٰ نگہبان کی کونسل کو مانا جاتا ہے،کیونکہ ملک میں صدارتی امیدواروں، انتخابی نتائج کی توثیق اور صدارتی امیدواروں اور ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت جیسے بنیادی فیصلے کونسل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کی بھی شوریٰ نگہبان سے توثیق ضروری ہے۔ شوریٰ کے پاس کسی قانون کو منظور کرنے یا نہ کرنے کے لیے20 روز کا وقت ہوتا ہے جس کے بعد قانون از خود منظور سمجھا جاتا ہے۔ اس 12 رکنی کونسل میں 6 مذہبی عالم شامل ہوتے ہیں جن کا تقرر سپریم لیڈر کرتے ہیں جبکہ 6 قانونی ماہرین کی نامزدگی وزارت قانون کی جانب سے عمل میں آتی ہے لیکن یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قانونی ماہرین کو مذہبی امور سے متعلق قانون سازی میں رائے دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ شوریٰ نگہبان کے ارکان کے عہدے کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔
ایران میں ہر 4 سال بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان کے امیدواروں کی منظوری شوریٰ نگہبان کی طرف سے دی جاتی ہے۔ ایران میں صدر کا انتخاب براہ راست عوام کی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ بظاہر تو ایران میں صدر کا الیکشن دنیا کے دیگر صدارتی انتخابات کی طرح معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا، ان کی اہلیت اور مختلف اداروں کے اختیارات کی بہت سی تفصیلات اور طریقہ کار دیگر ملکوں سے کافی جدا ہیں۔
اس سال جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ضمن میں ایران کی ’فارس نیوز‘ کی رپورٹ میں جو تفصیل دی گئی ہے، اس کے مطابق ان 7 امیدواروں میں موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیل، پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضائی، ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی، پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر عامر حسین غازی زادہ، سابق نائب صدر مہر علی زادہ اور سابق قانون ساز علی رضا زکانی شامل ہیں۔ اب بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو گا کہ آخر ایران میں صدارتی انتخاب کس طرح ہوتے ہیں۔ دراصل ایران میں ہر 4 سال بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان کے امیدواروں کی منظوری شوریٰ نگہبان کی طرف سے دی جاتی ہے۔
ایران میں صدر کا انتخاب براہ راست عوام کی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ بظاہر ایران میں صدر کا الیکشن دنیا کے دیگر صدارتی انتخابات کی طرح معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا، ان کی اہلیت اور مختلف اداروں کے اختیارات کی بہت سی تفصیلات اور طریقہ کار دیگر ملکوں سے کافی جدا ہیں۔ ایران میں 18 برس کی عمر کے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جبکہ اس سے پہلے 2007 تک ایران میں ووٹ ڈالنے کی کم سے کم عمر 15 سال تھی جسے دنیا میں ووٹنگ کے لیے سب سے کم عمر قرار دیا جاتا تھا۔
ایران کے آئین کی دفعہ 114 کے مطابق ملک کے صدر بننے کے لیے امیدوار کا ایک مذہبی و سیاسی شخص ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی اسے ایران کا شہری بھی ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر کو امانت دار اور متقی یعنی مذہبی احکامات کا پابند اور ایران کے سرکاری مذہب یعنی اسلام کا ماننے والا ہونا چاہیے۔ ’تہران ٹائمز‘ کے مطابق، صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند شخص کے پاس مذہبی اور شیعہ عقائد کا مناسب علم ہونا ضروری ہے۔ امیدواروں کے لیے ریاستی اداروں میں کام کرنے کا کم سے کم 4 برس کا تجربہ اور 20 لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں کا گورنر رہنے یا وزارت پر فائز رہنے کی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں مسلح افواج میں میجر جنرل یا اس سے زیادہ رینک کے افسران اور مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے امیدواروں کو بھی الیکشن لڑنے کے لیے رجسٹریشن کی اجازت دی گئی ہے۔ ایرانی پروٹوکول کے مطابق انتخابات لڑنے کے خواہش مند افراد پہلے وزارت داخلہ میں اپنا رجسٹریشن کراتے ہیں اور بعد ازاں شوریٰ نگہبان حتمی امیدواروں کی فہرست جاری کرتی ہے۔اس بار انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند لوگوں کے لیے ماسٹرس کی ڈگری کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ امیدواروں کے لیے 40 سے 70 سال کی عمر متعین کی گئی ہے۔ ادھر برطانوی اخبار ’گارڈین‘کی ایک رپورٹ کے مطابق، حسن روحانی نے شوریٰ کی جانب سے عمر کی حد متعین ہونے کے بعد وزارت داخلہ پر زور دیا ہے کہ وہ امیدواروں کے رجسٹریشن کے دوران اس شرط کو نظر انداز کر دیں جبکہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس بار عمر کی حد میں ترمیم کرنے کا مقصد حسن روحانی کی کابینہ میں شامل 39 سالہ وزیر اطلاعات محمد جواد آذری جھرمی کو انتخابات سے روکنے کے لیے کیا گیا ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محمد جواد آذری کو رواں برس جنوری میں انسٹاگرام بلاک کرنے اور انٹرنیٹ پر دیگر پابندیاں عائد کرنے سے انکار کرنے کے الزام میں عدالتی حکام نے طلب کیا تھا جبکہ بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ادھر ایران کے صدر حسن روحانی نے عدلیہ کے اس اقدام کے لیے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘کے مطابق، جواد آذری کے خلاف عدلیہ کی یہ کارروائی ایران میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان جاری کشمکش کا شاخسانہ کہی جا رہی ہے۔ ایران میں صدارتی انتخابات میں خواتین کے نہ حصہ لینے والی شرط پر ماضی میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ دراصل ایرانی آئین کے مطابق امیدوار کا سیاسی و مذہبی ’رجل‘ (مرد) ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایران میں 1990 کی دہائی سے خواتین صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی کاوشیں کرتی آئی ہیں۔ 1997 میں خواتین کے حقوق کی کارکن اعظم طالقانی وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے بطور امیدوار رجسٹریشن بھی کرایا تھا لیکن اس کے باوجود آج تک صدارتی امیدواروں کی کسی حتمی فہرست میں خاتون امیدوار کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایران میں دیگر مذہبی اقلیتوں اور یہاں بسنے والے سنی مسلمان بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے اہل نہیں مانے جاتے۔
[email protected]