ملک میں کووڈ ۔19 کے معاملے کم ہوئے توبلیک فنگس نئی مصیبت بن کر سامنے آگیااور اس نے ریاستی حکومتوں کو اسے بھی کورونا کی طرح وبا قرار دینے پر مجبورکردیا۔ اس طرح ملک کے سامنے صرف کورونا پر قابو پاناہی سب سے بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ اس کے بطن سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی بڑے چیلنج اورطویل وقت تک پریشان کن ہیں ۔جیسے معاشی بدحالی ، بڑھتی بے روزگاری ومہنگائی،تعلیمی سرگرمیوں میں کمی اور کوروناکی وجہ سے یتیم ہوئے بچوں کی پرورش یا شوہر کی موت کے بعد بیوائوں یاکمانے والے بچوں کی موت کے بعدبوڑھے والدین کی گزربسر کا انتظام کرنا۔یہ وہ مسائل ہیں جن سے نہ چشم پوشی کی جاسکتی ہے اورنہ انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ان میں سے اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث یتیم بچوں کی پرورش، تعلیم وتربیت اور لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے ، جس کی طرف سماجی کارکنان اوراین جی اوز توجہ دلارہی تھیں لیکن بہت کم ریاستی حکومتوں نے توجہ دی ، تاہم جیسے ہی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اورسرکاروں کو ان کی ذمہ داری اٹھانے کی ہدایت دی،ریاستی حکومتیں بھی حرکت میں آئیں اورمرکزی حکومت نے بھی پی ایم کیئر س فنڈسے بچوں کی مدد کا اعلان کیا ۔ کورٹ کی ہدایت کے بعد تقریبا تمام ریاستیں مدد کا اعلان کرچکی ہیں ، جوبچی ہیں،ان کے اعلان کی خبریں بھی آسکتی ہیں ۔
کوروناکی وجہ سے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھونے والے بچوں کی صحیح تعداد کسی کو معلوم نہیں ہے اورنہ ہی ان کے اعدادوشمار جمع کئے گئے یااندازے لگائے جارہے ہیں۔ مرکزی وریاستی حکومتیں کووڈ۔ 19پر قابوپانے ،مریضوں کا علاج کرانے اورویکسین لگوانے میں مصروف ہیں ۔اس طرف کسی کی توجہ گئی ہی نہیں کہ کوروناکی وجہ سے بڑی تعداد میں جو اموات ہوئیں ، ان سے اسی طرح کی بھیانک صورت حال پیدا ہوئی، جس طرح کسی ملک میں جنگ یا خانہ جنگی کے بعد یتیم بچوں کا سنگین مسئلہ پیدا ہوتا ہے اوریونیسیف اس کے حل کے لئے آگے آتی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ جلد ہی یہ مسئلہ حکومتوں کے نوٹس میں آگیا اور انہوں نے نہ صرف مدد کا اعلان کردیابلکہ بہت سی ریاستوں نے ان کی پرورش ، تعلیم وتربیت اورشادی کی ذمہ داری بھی اٹھانے کی بات کہی ہے ۔اگر ایساہوتا ہے تو یقینا بے سہارا بچوں کے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوجائیں گے ، فی الحال ان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جتنی توجہ یتیم بچوں پر دینے کی ضرورت ہے،اتنی ہی توجہ کے بے سہارا بیوائیں اوربوڑھے والدین بھی مستحق ہیں۔
مفت تعلیم، ہیلتھ انشورنس، ماہانہ الاؤنس، فکسڈ ڈپوزٹ، سرکاری ہاسٹلوں میں پناہ اورشادی بیاہ کا خرچ وغیرہ کی ذمہ داری اٹھانے کے اعلانات تو کردیئے گئے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امداد تمام مستحقین تک پہنچ جائے گی یا کچھ کو دے کر رسم ادا کی جائے گی۔ ابھی تک کسی بھی ریاست یا مرکز نے اس کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے نہ تو کوئی ایجنسی بنائی اور نہ دفتر بنایا، جہاں لوگ اندراج کراسکیں۔ اسی لئے بعض لوگ ایسے اعلانات کو جھوٹے وعدے سے تعبیر کررہے ہیں۔ یتیم بچوں،بے سہارا بیوائوں اوربوڑھے والدین کی پریشانی روز بڑھ رہی ہے ۔ لاک ڈائون میں کام نہ ملنے سے بہتوں کے سامنے فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہوگی۔ اس طرح کے اعدادوشمارمیں دیہی علاقے پیچھے چھوٹ سکتے ہیں۔جہاں ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جن کے اندرکورونا کی علامات پائی گئیں ، ان کاعلاج گھر پرہوا ، اسپتالوں میں بیڈنہیں ملا اورٹسٹ سے پہلے موت ہوگئی ۔ایسے لوگوں کے وارثین کیا امداد کے دائرے میں آئیں گے ؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب حکومتیں نہیں دے رہی ہیں ۔
[email protected]
یتیم بچوں کا مسئلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS