ہولناک اور موذی وبا کے اس دور میں جو کام حکومت کوازخود کرنا چاہیے، اس کیلئے بھی ہندوستان میں عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑرہی ہے۔ ملک کے سپریم کورٹ سے لے کر مختلف ریاستوں کے ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت کی نااہلی اور غفلت پر جس ردعمل کا اظہار کیا ہے اورجو تبصرے کیے ہیں، ان سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہندوستان میں حکومت اور انتظامات نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں بچی ہے۔ بالخصوص صحت کے شعبہ میں حکومت کی نااہلی عوام کو خون کے آنسو رلارہی ہے۔آکسیجن اور دوائوں کی کمی کے معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کی ممکنہ تیسری لہر پر اپنی جس تشویش کا اظہار کیا ہے اسے کسی بھی حال میں بے بنیاد نہیں کہاجاسکتا ہے۔ہندوستان میں ابھی کورونا کی دوسری لہرا پنی ہولناکی کا ریکارڈ قائم کررہی ہے، یومیہ 4لاکھ سے زیادہ افراد اس موذی وبا سے متاثر ہورہے ہیں۔جمعرات کو ایک دن میں ہی ریکارڈ 4.12لاکھ افرادمتاثر ہوئے ہیں اور 4ہزار افرادکی موت ہوگئی ہے۔ اب تک ہندوستان میں 2کروڑ سے زیادہ معاملات سامنے آچکے ہیں اور 2لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔اس موذی وبا سے دنیا بھر میں ہونے والی ہر چوتھی موت ہندوستان میں ہورہی ہے۔ دہلی سے بنگال تک ہر ریاست میں آکسیجن، وینٹی لیٹرس اور دوائوں کا سنگین بحران ہے۔اموات کی بڑھتی تعدادکی وجہ سے آخری رسوم کی ادائیگی کیلئے کئی کئی دن تک انتظار کرنا پڑرہاہے بعض جگہوں پر تو شمشان گھاٹوںمیں اجتماعی طور پر لاشوں کو جلایا جارہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اگر ہندوستان پر کورونا کی تیسری لہر حملہ آور ہوتی ہے تو صورتحال کتنی ہولناک ہوجائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ آکسیجن اور وینٹی لیٹر کی کمی کے معاملات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کورونا کی تیسری لہر پرا پنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو اس کے سدباب کیلئے فوری تیاری شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ اس تیسری لہر کی وجہ سے معصوم بچوں کی جان کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ اس ہولناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے ملکی سطح پر کوئی لائحہ عمل مرتب کرے۔ عدالت نے کہا ہے کہ تیسری لہر سے نمٹنے کیلئے آج سے ہی تیاریاں شروع کردیں۔اس وقت بچے بھی انفیکشن سے متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے بچوں کو ٹیکہ دینے کے انتظام کو یقینی بنایا جائے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ تیسری لہر آنی باقی ہے، ایسے میں دہلی میں آکسیجن کا کوئی بحران نہیں ہوناچاہیے۔ جسٹس چندرچوڑ نے مرکز کو حکم دیاہے کہ آکسیجن کی سپلائی نہ صرف بڑھائی جائے بلکہ آکسیجن کاآڈٹ کرانے اوراس کے الاٹمنٹ کے طریقوں پر بھی غور کیاجاناچاہیے۔ نیز گھر پر علاج کرارہے لو گوں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکومت نے آکسیجن کی ضرورت طے کرنے کا جو فارمولہ بنایا ہے وہ انتہائی غلط ہے، ہمیں اسپتالوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہم تیاری کریں گے تو تیسری لہر کا مرحلہ آنے پر ہم بہتر طریقے سے نمٹ سکیں گے۔سپریم کورٹ نے ایک اور اہم بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ملک میں ایک لاکھ ڈاکٹرا ور2.5لاکھ نرس خالی بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں اب تک روزگار نہیں ملا ہے، وبا کے اس دور میں ان کی خدمات حاصل کی جائیں، اس کے ساتھ ہی قومی داخلہ اہلیت ٹیسٹ (این ای ای ٹی) کی تیاری کرنے والے لاکھوں ڈاکٹرطلبا کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔ عدالت نے تیسری لہر سے نمٹنے کیلئے حکومت کے لائحہ عمل اورمنصوبہ کی بابت جانناچاہاہے۔
پہلی وبا سے موجودہ صورتحال تک کم و بیش سوا سال کا عرصہ ہے، اس دوران اگر حکومت نے کوئی کام کیا ہوتا تو آکسیجن کی کمی نہیں ہوتی۔الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تو آکسیجن کی کمی سے لوگوں کی موت کو قتل عام کا نام تک دے دیا ہے اوراس قتل عام کی ذمہ داربہرحال حکومت ہی ہے۔یہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک معاملہ ہے کہ جو کام حکومت کو از خود کرنا چاہیے اس کیلئے عدالت کو تنبیہ کرنی پڑرہی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ بغیر عدالتی تنبیہ کے حکومت کی نیند ہی نہیںکھلتی ہے۔ ملک کا یہ موجودہ بحران بلا شبہ حکومت کی اسی غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ ملک میں جس وقت پہلی لہرآئی تھی اگر اسی وقت صحت نظام کو بہتر بنالیاجاتا تو وبا کی وجہ سے لاکھوں اموات نہیں ہوتیں۔ اب جب کہ تیسری لہر کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی اس سنگین معاملہ میں مداخلت کردی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی ٹیم بناکر تیسری لہر کے سد باب کیلئے منظم اور منصوبہ بندا قدامات کرے۔ بچوں کواس موذی وبا سے بچائو کیلئے ان کی ٹیکہ کاری پر بھی غور کرے۔ عدالت کی زجر و توبیخ پر پیچ و تاب کھانے کے بجائے اگر حکومت نے ابھی سے تیاری شروع کردی تو امید ہے کہ تیسری لہر کا مقابلہ بہتر طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔
[email protected]
کورونا کی تیسری لہر کا خدشہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS