مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی
اسلام نہایت پاکیزہ مذہب ہے اور نبی رحمت ؐ کی تعلیمات سرتاپا حسین وطیب ہیں اور اس میں وہ حسن اور خوبصورتی ہے جنہیں دیکھ کر دنیا رشک کرنے لگی اور اس کی صداقت وحقانیت کو ماننے پر مجبور ہوگئی۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کی ہدایات وتعلیمات کے ہر پہلو سے شرافت اور پاکیزگی جھلکتی ہے۔ نکاح جیساسماجی عمل اسلام کی نظر میں صرف جائز طریقہ سے نفسانی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک خوبصورت عبادت ہے ۔ انبیاء رشتہ ازدواج سے منسلک رہے اور خود امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐنے صرف نکاح ہی نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنی عظیم سنت بھی قرار دیا ہے۔ارشاد فرمایا’’ نکاح میری سنت ہے جس نے میری اس سنت پر عمل کرنے سے گریز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘( ابن ماجہ )۔ آپ ؐنے نکاح کے بغیر تجرد انہ زندگی گزار نے کو سخت ناپسند فرمایا ہے ،اس طرح کے عمل کو اسلامی مزاج کے خلاف بتایا ہے۔ ایک موقع پر اس کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ اسلام میں رہبانیت (دنیا سے الگ تھلگ ہوجانا) نہیں ہے‘‘( نیل الاوطار )۔ آپ ؐ نے نکاح کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ موقع بموقع اس کے فوائد بھی بیان کرتے رہے تاکہ ان میں اس کی اہمیت اجاگر رہے اور اس سلسلہ میں غفلت کا شکار نہ ہوں۔ ایک موقع پر آپؐ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے نکاح کی اہمیت ،شادی شدہ زندگی کی مسرت اور اس کے اخلاقی فوائد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے نوجوانو! تم میں سے جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی نگاہ کو پست رکھتی ہے اور شہوانی خواہشات کو بے لگام نہیں ہونے دیتی ،اور جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے اس لئے کہ روزہ شہوت کو توڑ نے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے‘‘(بخاری)۔
شادیوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے ہزاروں لڑکیوں کے ماں باپ کو متفکر ہی نہیں بلکہ مضطرب کرکے رکھ دیا ہے۔اس وقت مسلم معاشرہ جہیز ،گھوڑے جوڑے اور رسم ورواج کی لعنت میں گرفتار ہو چکا ہے۔یہ مسلم معاشرہ کا ناسور بن گیا ہے ۔س سے دشمنان اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کی ہمت ہو رہی ہے اور مسلم معاشرہ کو شرمندہ کرنے کا موقع ہاتھ آرہا ہے۔
چونکہ نکاح انسانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ہے ،یہ دو خاندانوں کے پروان چڑھنے اور انسانیت کی بقا اور توالد وتناسل کا نہایت اہم ذریعہ ہے ، اسی لئے شریعت نے اسے انتہائی آسان اور سہل بھی بنایاہے ،صرف دو گواہوں کی موجود گی میں عاقل وبالغ کا ایجاب وقبول انہیں ہمیشہ کیلئے ازدواجی بندھن میں باندھ کر ایک دوسرے کی ذات کو حلال وطیب بنا دیتا ہے ، نکاح دراصل دنیوی اور دینی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہے ، جہاںایک طرف یہ سماجی بندھن اور آپسی جوڑ کا نام ہے تو وہیں دوسری طرف فعل عبادت اور باعث اجر وثواب بھی ہے اور عبادت بھی ایسی کہ اس کا سلسلہ نکاح سے شروع ہوتا ہے اور نکاح ٹوٹنے تک باقی رہتا ہے ۔اسی وجہ سے رسو ل اللہ ؐ نے محفل نکاح کو مسجدوں میں اور ممکن ہو تو جمعہ کے دن منعقد کر نے کو افضل قرار دیا ہے۔رسول اللہ ؐ نے تقریب نکاح کو نہ صرف آسان اور سادہ طریقے پر کرنے کا حکم دیا بلکہ دعوت ولیمہ جو کے مسنون ہے کو بھی سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہوئے فضولیات سے بچنے کی ترغیب دی ہے ، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا’’ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے‘‘(شعب الایمان )۔ حدیث بالا میں امت کو ہدایت دی گئی اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں ،اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری شادیوں اور اس کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی ۔ شادی اور دعوت ولیمہ کے سلسلہ میںخودرسول اللہ ؐ کا عملی نمونہ موجود ہے کہ جس وقت آپؐ نے ازواج مطہرات سے نکاح فرمایا اور اس پر جو ولیمہ کی دعوت فرمائی وہ انتہائی سادہ اور ہلکی پھلکی ہوتی تھی صرف حضرت زینب بنت جحش ؓ کا ولیمہ چھوڑ کرجس میں پوری ایک بکری پر دعوت ولیمہ کی گئی تھی اس کے علاوہ بقیہ سب کا ولیمہ ہلکے پھلکے انداز میں فرمایا تھا ۔بعض ازواج مطہرات کا ولیمہ تو صرف دوسیر جو کے ساتھ کیا اور ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کے ولیمہ میں تو صحابہ ؓ اپنے اپنے پاس سے کچھ کھجوریں ،پنیر اور گھی لائے ،ان سب کو ایک دستر خوان پر رکھ دیا گیا اور سبھوں نے مل کر کھایا یہی ولیمہ کی دعوت بھی ہوگئی تھی( بخاری)۔
اسلام اور پیغمبر اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں نہایت واضح احکامات اور تفصیلی ہدایات دی ہیں جو کتب حدیث وسیرت وفقہ وتفسیر میں موجود ہیں بلکہ نکاح کے سلسلہ میں خود رسول اللہ ؐ کا مبارک اسوہ اور آپ ؐ کا عظیم عملی نمونہ امت کے سامنے موجود ہے۔ رسول اللہ ؐنے لڑکے اور لڑکی کے انتخاب سے لے کر محفل عقد ،ولیمہ مسنونہ ،پھر ماں باپ بننے اور اس کے بعد کی پوری زندگی گزارنے کے رہنمایانہ اصول تفصیل سے ذکر فرمائے ہیں۔اگر کوئی اس کی رعایت کے ساتھ اپنے شادی کے تقریبات منعقد کرے گا اور اس کی روشنی میں زندگی گزارے گا تو اس کے نتیجہ میں اسے وہ خوشگوار زندگی حاصل ہوگی جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتا ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ جس قدر اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے اور اس کی تقریبات کو جس سہل انداز میں انجام دینے کی تعلیم وترغیب دی ہے بہت سے مسلمان ہیں جنہوں نے اس میں خرافات شامل کرکے اسے اتناہی مشکل ترین بنادیا ہے۔اس کے نتیجہ میں نکاح ایک عبادت اور مقدس ترین عمل ہونے کے باوجود خرافات کی نذر ہو کر رہ گیا ہے۔ان نادانوں نے رسومات کے ذریعہ اس کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔لڑکیوں کی پیدائش سے لے کر ان کی شادیوں تک اور پھر اس کے بعد نہ جانے کتنے ایسی خرافات ورسومات ہیں جن کی وجہ سے ان کے ماں باپ کی نیندیں حرام ہوکر رہ جاتی ہیں۔ سامان جہیز ،جوڑے کی رقم کے نام پر کثیر رقم ،رسموں کا بہانہ بناکر دعوتوں کا حصول اور عقد کے موقع پر کشادہ شادی خانہ اور مختلف اقسام کے کھانوں کی فرمائش لڑکی کے باپ کو مقروض بنا دیتی ہے ،وہ بیچارہ اپنی لڑکی کی شادی کی خاطر بچپن ہی سے کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔خواہشات کو دباتا ہے، ضروری چیزوں سے بھی احتراز کرتا ہے اور پائی پائی جوڑ کر رکھتا ہے۔ مناسب رشتے کی تلاش میں اس کے جوتے گھس جاتے ہیں ۔ لڑکی کو دیکھنے کے بہانے لڑکے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔وہ بیچارہ اپنے گھر کا سلیقہ بتاتے بتاتے تھک جاتا ہے اور اس کی جیب ہلکی ہوجاتی ہے۔ اللہ اللہ کرکے جب کسی کو لڑکی پسند آجاتی ہے تو پھر یہاں سے شادی کے بعد تک رسومات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔دولہے والوں کی ضافت کرتے کرتے وہ بیچارہ تھک جاتا ہے۔اگر وہ مناسب ملکیت کا مالک ہوتا ہے تو اس کی کافی رقم خرچ ہوجاتی ہے یا اگر وہ مالی اعتبار سے متوسط سے نیچی سطح کا ہوتا ہے تو وہ قرض کے بوجھ سے اس قدر جھک جاتا ہے کہ پھر ساری عمر اٹھ نہیں پاتا ۔
بسااوقات شادی کے بعد بھی اسے سکون وچین نصیب نہیں ہوتا ۔داماد اور اس کے گھر والوں کے مطالبات بارش کے قطروں کی طرح مسلسل گرتے ہی جاتے ہیں جس میں وہ بھیگ کر رہ جاتا ہے۔ جب بات آگے بڑھتی ہے تو پھر سنگین رخ اختیار کر لیتی ہے۔شادیوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے ہزاروں لڑکیوں کے ماں باپ کو متفکر ہی نہیں بلکہ مضطرب کرکے رکھ دیا ہے۔اس وقت مسلم معاشرہ جہیز ،گھوڑے جوڑے اور رسم ورواج کی لعنت میں گرفتار ہو چکا ہے۔یہ مسلم معاشرہ کا ناسور بن گیا ہے ۔اس سے دشمنان اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کی ہمت ہو رہی ہے اور مسلم معاشرہ کو شرمندہ کرنے کا موقع ہاتھ آرہا ہے۔گرچہ شادیوں میں جہیز وتلک کی لعنت اور نت نئی رسومات یہ دراصل برادران وطن ہی کی دین ہے اور ان کے معاشرہ میں یہ لعنت ہم سے کئی گنا زیادہ ہے ،مگر ہم کو اس سلسلہ میں ان کی طرف دیکھنا نہیں ہے بلکہ یہ غور وفکر کرنا ہے کہ ہم جس مذہب کے ماننے والے اور جس نبی رحمت ؐ کے پیرو کار ہیں یہ ا عمال ان کے احکامات اور تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں بلکہ یہ ایسے ا عمال ہیں جن سے اسلام بے زاری صاف ظاہر ہوتی ہے ۔ ٭٭٭
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click: https://bit.ly/37tSUNC