محمد صابر حسین ندوی
رمضان المبارک نہ صرف مسلمانوں کیلئے رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے بلکہ یہ پوری انسانیت پر سایہ فگن ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ابن آدم میں سے ہر ایک اس کی رحمتوں سے سرشار ہوسکتا ہے۔ یہ بات ناانصافی کے مترادف ہے کہ باران رحمت کے چھینٹوں پر اپنا اور پرائے کاٹھپا لگایا جائے، لامتناہی رحمت کو مقید کیا جائے، چنانچہ یہ بھی غلط بات ہوگی کہ رمضان المبارک سے مسلمان خوب فائدہ اٹھائیں، زندگی، آخرت اور رضائے الہی کے متلاشی ہوں لیکن ہمارے ساتھ موجود ایک بڑی آبادی اس سے محروم رہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی اکثریت اللہ کو نہیں مانتی۔ کیا خوب ہو کہ ہم رمضان کو ایک ایسا وسیلہ بنائیں جس سے ان تک اللہ تعالی کا تعارف پہنچے، اس دنیا کے حقیقی مالک اور رب العالمین کا سایہ ان پر دراز ہو۔ دعوت اور تبلیغ میں اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی یا پھر رضائے الہی کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ ہم اللہ تعالی کی معرفت کا باعث بن جائیں۔ جس کیلئے کبھی انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ہوا کرتا تھا۔ جن کی جد و جہد کے نتیجے میں اللہ سے اس کے بندے جڑتے تھے۔ اگر ہم خصوصاً رمضان کی مناسبت سے یہ کام کریں کہ انسانیت کو بندگی سے متعلق کردیں اور خاص طور پر اس سلسلہ میں اس کلام کا سہارا لیں جو رمضان میں ہی اترا تھا، جسے اس مہینے سے خاص مناسبت ہے تو پھر سونے میں سہاگہ والی بات ہوجائے گی۔
ہونا یہ چاہیے کہ اس رمضان میں قرآن مجید کا پیغام عام کیا جائے۔ جو ایک بڑی خلیج دونوں آبادیوں کے درمیان واقع ہوگئی ہے اور روز بروز بڑھتی جاتی ہے اسے پاٹنے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر لوگوں کو قرآن مجید سے جوڑنے میں کامیاب ہوجائیں، انہیں براہ راست اللہ تعالی کے ذکر اور تعارف سے منسلک کردیں تو ہدایت قریب تر ہوسکتی ہے۔ ان کے دل نرم پڑ سکتے ہیں، ان کا رویہ درست ہوسکا ہوسکتا ہے، وہ کلام الہی کی چاشنی سے اپنی زندگی میں مٹھاس گھول سکتے ہیں، نفرت، شدت، تعصب کی زنجیریں کاٹی جاسکتی ہیں۔ قرآن مجید کو لیکر جو کچھ غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ان کا توڑ کیا جاسکتا ہے اور انہیں یہ بتایا جاسکتا ہے کہ مسلمان جس قرآن پاک کو مانتے ہیں وہ کس قدر انسانیت، مودت اور خداترسی پر مبنی ہے۔ جس سے انسان بنتے ہیں، دہشت اور فساد کی جڑ کٹتی ہے، حق کا بول بالا ہوتا ہے، مظلوم کا ساتھ دیا جاتا ہے اور ظالم کی کلائی مروڑی جاتی ہے۔
ہر مسلمان رمضان میں اپنے ایک غیر مسلم بھائی کو کتاب الٰہی کا نسخہ دعوتی نقطۂ نظر سے پہنچا دے تو پانچ سال میں ملک کا کوئی غیر مسلم شہری ایسا باقی نہیں رہے گا جس کے پاس قرآن نہیں پہنچا ہو اور اس کے اثرات گہرے ، دور رس اور غیر معمولی ہوں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جو کشش اور دلوں کو مسخر کر نے کی جو طاقت ہے وہ ہزار مخالفتوں اورمعاندانہ رویوں کے باوجود آج بھی قائم ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی رمضان المبارک اور برادران وطن کے عنوان کے تحت ایک جگہ رقمطراز ہیںکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان ہی انسان کی نجات کا واحد راستہ ہے جو لوگ ایمان سے محروم ہیں مرنے کے بعد انھیں اپنے عمل کا حساب دینا ہو گا اورایمان سے محرومی کی وجہ سے وہ ہمیشہ دوزخ کا ایندھن بنے رہیں گے۔ یہ دوزخ اتنی تکلیف دہ اور اذیت کے اسباب سے بھر پور ہوگی کہ دنیا میں اس کی ہولناکیوں اور وحشت انگیزیوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کریں گے۔ خدا کی شانِ کریمی کا دامن اتنا وسیع ہے اوراس کے عفو و درگزر کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ وہ بڑے بڑے گناہ کو بھی معاف کردیں گے لیکن جیسے کوئی غیرت مند شوہر اپنی بیوی کی بد مزاجی، فضول خرچی ، بد صورتی اور بد زبانی کو سہ لیتا ہے لیکن اس کی بد چلنی اور بد کرداری کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بات گوارہ نہیں ہے کہ جن انسانوں کو اس نے وجود بخشا ہے اور پل پل ان کی نعمتوں کے سہارے طرح طرح کی لذتوں اور راحتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں، وہ اپنے خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے، اس لئے شرک ایسا جرم عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اسے معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس لئے انسانی ہمدردی کا سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے کہ ہم اپنے ان ہدایت نا آشنا بھائیوں تک حق کی روشنی پہنچانے کی کوشش کریں، رمضان المبارک ہمارے لئے اس کا بہت بہتر موقع فراہم کرتا ہے، اسی مہینہ میں آپؐ پر قرآن مجید کے نازل ہو نے کا آغاز ہوا ، اسی لئے نزولِ قرآن کی یادگار کے طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی، شب ِقدر کو بھی نزولِ قرآن ہی کی نسبت سے یہ بلند و بالا مقام حاصل ہے۔ ہم اس ماہ میں انگریزی اور مقامی زبانوں میں قرآن مجید اور احادیث کا ترجمہ برادرانِ وطن تک پہنچا نے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اکثر مقامی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہو چکا ہے، پورے ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمان کی تعداد مانی جائے اور ہر مسلمان رمضان میں اپنے ایک غیر مسلم بھائی کو کتاب الٰہی کا نسخہ دعوتی نقطۂ نظر سے پہنچا دے تو پانچ سال میں ملک کا کوئی غیر مسلم شہری ایسا باقی نہیں رہے گا جس کے پاس قرآن نہیں پہنچا ہو اور اس کے اثرات گہرے ، دور رس اور غیر معمولی ہوں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جو کشش اور دلوں کو مسخر کر نے کی جو طاقت ہے وہ ہزار مخالفتوں اورمعاندانہ رویوں کے باوجود آج بھی قائم ہے۔
یوں تو پوری دنیا اللہ تعالی کی عبادت کرتی ہے۔ ہر مخلوق میں بندگی کا مادہ ہے جسے وہ کسی نہ کسی صورت پورا کرتی ہی ہے بالخصوص انسانوں میں بندگی، عبادت اور جھک جانے کا خاصہ بدرجہ اتم ہے لیکن چونکہ اسے اک گونہ اختیار حاصل ہے اسی لئے وہ مالک حقیقی کے بجائے کبھی کبھی اپنے سے حقیر مخلوق کے سامنے بھی سجدہ ریز ہوجاتا ہے یا بسااوقات عقل و علم کی شوخی میں وہ کجی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لادینیت، الحادیت کی آڑ میں نیچریت کا دلدادہ بن جاتا ہے مگر جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت و رشد سے مالا مال کیا، صراط مستقیم کی راہ پر گامزن ہوئے ۔انہوں نے اپنے مالک کو پالیا اور اس کی عبادت ویسے ہی انجام دی جس طرز میں اس کی رضا اور خوشنودی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت کرنے کے انداز اور طریقہ کار میں بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ یہ سمجھدار، عقلمند اور سلیم طبیعت کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ مشہور صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کی جستجو اور حقیقی مالک الملک و رسول کیلئے زندگی کھپا دی۔ انہوں نے آزادی کے بعد غلامی اور پھر آزادی جیسے واقعات دیکھے، اپنے سے کمتر لوگوں کے یہاں خدمت اور نوکری کرنے پر مجبور ہوئے لیکن آخر کونسی چیز تھی جس نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ وہ ایرانی زرتشت سے نکل کر موحد کی جانب سفر کریں؟۔
یہ دراصل ایک چرچ/ کلیسا میں طریقہ عبادت کی زیارت تھی۔ ایسے میں ذرا سوچیے! کہ اگر نماز کا طریقہ لوگوں تک پہنچے، بندگی، عبادت، تذلل، خشیت اور للہیت کی سب سے اعلی کیفیت کا دیدار کروایا جائے تو بھلا لوگوں پر اس کاکتنااچھا اثر ہوگا۔ اگر وہ مالک حقیقی کی طرف سے عائد عبادت کی زیارت کرلیں، انہیں بتایا جائے کہ فطرت سلیمہ کا کیا تقاضا ہے اور انہیں کس طرح پورا کیا جائے تو پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ اس کی طرف مائل ہوں۔ عصر حاضر میں ایسے متعدد حالات سننے میں آئے ہیں جب لوگ مسلمانوں کے طریقہ عبادت سے متاثر ہوئے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں نماز، روزے کا ایک خاص ماحول ہوتا ہے، نماز یوںکی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی مار ہے لیکن عام حالات میں اگر عبادات کی جھلک دکھائی جائے، لوگوں کو مسجد سے قریب کیا جائے تو بلاشبہ ایک اچھا نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔ n