مفتی محمدمحبوب شریف نظامی، حیدرآباد
’’ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ فرشتے اورروح الامین اس میں اپنے رب کی اذن (اجازت) سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے‘ طلوع فجر تک (یعنی وہ صبح جس کی روشنی سورج نکلنے سے پہلے مشرق کی طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہے جس کو صبح صادق کہتے ہیں )‘‘(القدر:1-5)۔شب قدر کی اہم خصوصیت نزول قرآن کی ہے ۔ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں لوح محفوط سے آسمانی دنیا پر شبِ قدر میں نازل فرمایا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کبھی ایک سورت اور کبھی دو چار آیتیں نازل ہوتی رہیں اس کی ابتداء بھی رمضان کے مہینہ میں شب قدر سے ہوئی اور تکمیل 23 سال میں ہوئی ۔
اِس ایک رات کی تلاش میں اُمتی پانچ راتیں عبادت و ریاضت توبہ استغفار میں گذار دیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاںکمائیں۔
یہ رات سلامتی والی ہے اس کی سلامتی صبح صادق تک رہتی ہے ۔ یہ سب بھلائیاں ان امتیوں کو ملتی ہیں جو اس رات کی قدر کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کونسی رات ہے اور اس میں کیا کرنا چاہیے ۔ جواب یہ ہے اس رات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان کی آخری طاق راتوں میں چھپا کر رکھاہے۔ آخری طاق راتوں سے مراد 29, 27, 25, 23, 21 ویں راتیں ہیں ۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’شب قدر کو رمضان کے آخری دہے(آخری عشرہ) کی طاق راتوںمیں تلاش کرو ۔مسلم شریف میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ شبِ قدر کو رمضان کے آخری دہے کی طاق راتوں میں ڈھونڈو‘‘۔ البتہ جمہور کا جھکاؤ 27 ویں رات کی طرف ہے ۔ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس رات کوچھپا کر کیوں رکھا گیا ؟ اس کے تین جواب ہیں :
(۱) اچھی اور قیمتی چیزوں کو چھپا کر رکھا جاتا ہے روپئے پیسے‘ سونا چاندی اور ہیرے جواہر کو کوئی عقلمند آدمی یہاں وہاں کھلے طور پرر نہیں رکھتا ۔ اسے محفوظ جگہ میں کسی سیف (Safe) میں چھپاکر رکھتا ہے ۔ یہ رات بڑی قیمتی ہے اسی وجہ اس کو چھپا کر رکھا گیا ہے ۔ (۲) اِس ایک رات کی تلاش میں اُمتی پانچ راتیں عبادت و ریاضت توبہ استغفار میں گذار دیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاںکمائیں (۳) وہ رات اس لئے بھی پکے طریقہ سے متعین نہیں کردی گئی کہ متعین ومقرر ہوجانے کے باوجود بعض لوگ اپنی نفس پرستی ا ور عادتوں سے مجبور ہوکر گناہگاری میں رات گذارتے تو ان کی پکڑ سخت ہوتی کہ جانتے ہوئے بھی گناہوں میں مبتلا رہے، انجانے میں گناہ کی پکڑ ہلکی بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر جانتے بوجھتے ہوئے کہ آج شب قدر ہے اللہ سے مغفرت طلب کرنے اور رحمت و سلامتی کو لوٹنے کی رات ہے ،گناہ کرے تو اس کی پکڑ اور اس کی سزا سخت ہوجاتی۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس رات کو چھپا کر ہم گنہگاروں پر رحم فرمایا ہے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے شب قدر بتادی گئی تھی میں تمہیں بتانے کیلئے باہر آیا تو دیکھتا ہوں کہ تمہارے دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے ۔ تمہارے جھگڑے کی وجہ وہ کونسی شب ہے بھلادی گئی ۔
اس رات میں کیا کرنا چاہیے اس سلسلہ میں چند احادیث پیش ہیں۔بخاری ومسلم میں ہے ابوہریرہ ؓ راوی ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شب قدر میں عبادت کیلئے کھڑا رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوگئے ۔ حضور نے فرمایا جو شخص شب قدر کی خیر وبرکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اور بدنصیب ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا : رسول اللہ ؐ میں شب قدر کو پاؤں تو کیا دعا مانگوں، حضور ؐ نے فرمایا یہ دُعا کرو ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘، ’’یا اللہ آپ بہت معاف کرنے والے اور معافی کو پسند کرتے ہیں،میری خطائیں معاف کردیجئے ‘‘۔
یہ رات اس قدر اہم ہے تو اس کی قدر کرنا چاہیے غفلت میں گذارنا نہیں چاہیے ۔ اس کی قدر کا آخری درجہ یہ ہے کہ عشاء تراویح اور پھر فجر کی نماز قضا نہ کرے،اس کے درمیان کوئی گناہ کا کام نہ کرے،ان شاء اللہ،اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے رات بھر عبادت کرنے کا ثواب دیں گے ۔اللہ ہم سب کو شب قدر کی پوری طرح قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔ n