محمد قمرالزماں ندوی
حضوراکرم ؐماہ رمضان میں جہاں بدنی عبادت یعنی روزہ ،تراویح، تہجد کی کثرت اور تسبیحات و تلاوت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے وہیں مالی عبادت کا بھی بہت زیادہ اہتمام فرماتے۔ کثرت سے صدقات و خیرات کرتے،غریبوں، محتاجوں اور ناداروں پر سخاوت کرتے اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کی نصرت و اعانت فرماتے۔ عید کی نماز سے پہلے پابندی سے اور ضروری سمجھ کر خود بھی صدقئہ فطر نکالتے اور صاحب نصاب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کا مکلف اور پابند بناتے۔ صحیح اور ثقہ روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپؐ کی سخاوت رمضان المبارک کے مقدس لمحات میں اپنے عروج اور شباب پر ہوتی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور یہ سخاوت و فیاضی رمضان المبارک میں سب سے زیادہ ہوجاتی تھی ،پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی،توآپؐ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے (بخاری شریف)۔
ضرورت ہے کہ ہم اس ماہ مقدس میں اپنے دست سخاوت کو وا کردیں اور تشہیر ،نام و نمود اور شہرت و ناموری اور ریا کاری سے بچتے ہوئے راہ خدا میں خوب خوب خرچ کریں بلکہ ملک کے موجودہ ستم ظریفانہ حالات میں صدقات نافلہ سے محتاج غیرمسلم بھائیوں کی بھی مدد اور اعانت کریں اور تالیف قلب کے ذریعے ملک میں امن و شانتی کی فضا اور ماحول بنانے کی فکر کریں۔یہ کام بھی آج کے حالات میں نہایت ضروری ہے۔
آپؐ نے اپنے اصحاب کرام اور اپنی پوری امت کی اسی اخلاق اور اسی سیرت پر تربیت فرمائی اور مال خرچ کرنے کی ترغیب میں ایسی موثر نصیحتیں اور وصیتیں فرمائیں جن کو پڑھ کر خیال ہونے لگتا ہے کہ فاضل مال میں شاید آدمی کا کوئی حق ہی نہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جس کے پاس ایک سواری زائد ہو تو جس کے پاس ایک بھی سواری نہ ہو اس کو دے دے، جس کے پاس ایک سے زائد ناشتہ ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس ناشتہ نہ ہو(ترمذی)۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس کے پاس دو کا کھانا ہو وہ تیسرے کو بھی کھانا کھلائے اور جس کے پاس تین کا کھانا ہو وہ چوتھے کو شریک کرے( طبرانی فی الاوسط)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کا مرتبہ اور اس کی حاجت برآوری و غمخواری کی قیمت اور اہمت اتنی زیادہ بلند کی کہ اس سے بلند کسی اور معیار کا تصور ناممکن ہے، اس میں کوتاہی کرنے والا ایسا ہے جس طرح خاص خدا کی نافرمانی اور کوتاہی کرنے والا۔ مشہور حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندے سے فرمائیں گے کہ میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہیں کی، وہ کہے گا اے رب میں کیسے آپ کی عیادت کرتا، آپ تو رب العالمین ہیں، اللہ تعالی فرمائے گا کہ تجھ کو معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا وہ کہے گا اے رب میں کیسے آپ کو کھانا دیتا آپ تو رب العالمین ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھ کو خبر نہیں کہ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے اس کو کھانا نہیں دیا، اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو وہ کھانا میرے پاس پہنچتا، اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا کہ اے رب العالمین میں آپ کو کیسے پانی پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے اس کو پانی نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اس کو میرے پاس پاتا( مسلم شریف)۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے اور انسان کی ضرورت پر کام آنے کا اسلام میں کیا مقام ہے اور صدقہ و خیرات اور امداد و تعاون کی کتنی اہمیت ہے۔ صدقہ و خیرات تو سال کے کسی مہینہ،کسی وقت اور کسی دن بھی ادا کرسکتے ہیں اوراجر و ثواب کے حق دار ہو سکتے ہیںاور ایمان والے جن کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے اور جو صاحب نصاب ہیں اور جن کو اللہ تعالی نے توفیق سے نوازا ہے پورے سال اپنی دولت کا کچھ حصہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن رمضان المبارک میں ایمان والے اپنے پیارے نبیؐ کی پیروی اور ثواب کی زیاتی کی خاطر دلوں کے دروازے کھول دیتے ہیںاور کثرت سے غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اور مستحقین میں صدقات واجبہ اور نافلہ تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ جس طرح دیگر عبادات میں رسم و رواج اور ریاء و دکھاوا اور نام و نمود اور شہرت نے جگہ بنا لی ہے صدقات و خیرات کی تقسیم میں بھی اخلاص و للہیت اور اخفا و رازداری ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور شہرت، نام و نمود و دکھاوا اور پبلسٹی کا رنگ اور جھلک زیادہ نظر آرہا ہے ۔اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی خوب خوب تشہیر اور پبلسٹی کی جاتی ہے۔ غریبوں اور محتاجوں کو گھنٹوں لائن میں کھڑا کیا جاتا ہے اور خوب تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ اخبارات میں بڑھا چڑھا کر اس کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ یقینا یہ چیزیں روح عبادت کے بالکل خلاف ہیں اور شریعت اس کو کسی طرح بھی پسند نہیں کرتی ۔اسلام تو چاہتا ہے اور شریعت کا حکم بھی ہے کہ راہ خدا میں اس طرح خرچ کرو کہ دائیں ہاتھ سے جو کچھ دیا جائے بائیں ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہو۔اس جملہ اور تعبیر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ صدقہ و خیرات کا عمل بالکل ہی راز داری،خاموشی اور اخفا کے ساتھ ہو ،دینے والے اور لینے والے کے علاوہ تیسرے کو اس کا علم بالکل نہ ہو۔
یہ نکتہ بھی پیش نگاہ رہے کہ اسلامی تعلیمات اور حکم شریعت کے مطابق راہ خدا میں پوشیدہ خرچ کرنے کی بھی اجازت ہے اور اعلانیہ بھی۔اس کی تفصیل سورہ بقرہ ایت 247 میں موجود ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ جو لوگ اپنے مال رات اور دن پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے پروردگار کے پاس ان کے لئے اجر و ثواب موجود ہے اور انہیں نہ خوف کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ غم کا۔ بلکہ ایک دوسری جگہ نہایت ہی صاف لفظوں میں دونوں طریقوں کی اجازت بھی مرحمت فرمادی۔ چنانچہ سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 271 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور انہیں پوشیدہ اور خفیہ طور پر فقراء کو دو تو یہ بھی تمہارے لئے بہتر ہے۔ یہ تمہارے گناہ کو دھو دے گا اور اللہ تعالی کو تمہارے اقدامات کی خوب خبر ہے۔علماء کرام نے لکھا ہے کہ صدقات واجبہ اعلانیہ ہو اور صدقات نافلہ پوشیدہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقات واجبہ اعلانیہ دینے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور دوسرے بھی اپنے واجبات ادا کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے ہیں۔ تاہم صدقات نافلہ میں بہتر یہ ہے کہ اسے پوشیدہ دیا جائے۔ صدقات واجبہ میں اظہار اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلامی حکومت کے متعین عاملین اور کارندے اصحاب ثروت اور مالدار کے پاس جاکر حساب و کتاب کے بعد زکوٰۃ وصول کرتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ یہ عمل تو اعلانیہ ہوگا ہی۔لہذا ضرورت ہے کہ ہم اس ماہ مقدس میں اپنے دست سخاوت کو وا کردیں اور تشہیر ،نام و نمود اور شہرت و ناموری اور ریا کاری سے بچتے ہوئے راہ خدا میں خوب خوب خرچ کریں بلکہ ملک کے موجودہ ستم ظریفانہ حالات میں صدقات نافلہ سے محتاج غیرمسلم بھائیوں کی بھی مدد اور اعانت کریں اور تالیف قلب کے ذریعے ملک میں امن و شانتی کی فضا اور ماحول بنانے کی فکر کریں۔یہ کام بھی آج کے حالات میں نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی بھر پور توفیق مرحمت فرمائے آمین۔ n