کورونا وائرس خون آشام درندہ کی طرح سامنے آنے والی ہر ذی روح کے مقدر میں موت لکھ رہاہے۔حالات اتنے سفاک ہوگئے ہیں کہ اب لوگوں نے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اوراس خوف میں مبتلا ہیں کہیں اگلی باری ان کی نہ آجائے۔ خوف و دہشت کے اس ماحول میں حفاظت اور بچائو کا واحد ذریعہ ٹیکہ اور ویکسین ہے جسے لینے کیلئے لوگ باگ دوڑے پڑرہے ہیں، کورونا ویکسین لگانے کیلئے لوگوں پرایک ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی ہے اور ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ اسے ویکسین مل جائے۔
لفظوں کے جادو سے کورونا کو ختم کرنے پر یقین رکھنے والی مرکزی حکومت نے اس سنگین صورتحال کے درمیان بغیر کسی تیاری کے یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یکم مئی سے18سال سے زیادہ عمر کے لوگ بھی اب ویکسین لگانے کے اہل ہوں گے، اس کیلئے ویب پورٹل پر باضابطہ رجسٹریشن کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ حکومت کی یہ پالیسی پہلے مرحلہ کے پہلے دن ہی ناکام ثابت ہوگئی ہے۔ کوون پورٹل یا آروگیہ سیتو ایپ پر رجسٹریشن شروع کرنے کے کچھ دیر بعد ہی ہزاروں طرح کے تکنیکی مسائل سامنے آنے لگے ہیں اور امیدواروں کو وقت کا کوئی سلاٹ دستیاب نہیں ہورہا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ بھوکے کو کھانے پر بلاکر اس کے سامنے خالی پلیٹ رکھ دی جائے۔یہ پالیسی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے فقدان کا کھلا مظہر ہے۔حکومت نے ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ملک کی تقریباً76فیصد آبادی یعنی 104کروڑ لوگوں کے ویکسین لینے کے اہل ہونے کا اعلان کردیا۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ آج سے چھ ماہ قبل پہلے مرحلہ میں جن صحت کارکنوں اور پہلی قطار میں رہ کر کورونا سے لڑنے والے 30کروڑ لوگوں کیلئے ویکسین فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی اب تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔ ملک کے30کروڑ کورونا واریئرس میں سے اب تک فقط 44فیصد لوگوں کو ویکسین مل سکی ہے، اس میں بھی زیادہ تر لوگوں نے ابھی صرف پہلی خوراک ہی لی ہے۔دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی 135کروڑ کی آبادی میں سے ابھی تک صرف 14 کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جاسکی ہے جن میں سے 10کروڑ افراد نے ابھی صرف پہلی خوراک لی ہے۔ یعنی صرف چار کروڑ افرادکو اب تک ویکسین کی دونوں خوراکیں مل چکی ہیں اور ابھی 120 کروڑ لوگوں کو پہلی یا دوسری خوراک دینی باقی ہے۔اس کیلئے تقریباًسوادو سو کروڑ خوراک کی ضرورت پڑے گی۔
جس طرح ملک آکسیجن کی سنگین قلت اور بحران سے گزر رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ سنگین صورتحال ٹیکہ اور ویکسین کے تعلق سے پیدا ہوگئی ہے۔ ملک بھر سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ زیادہ تر اسپتالوں میں ویکسین یا تو ختم ہوگئی ہے یا ختم ہونے والی ہے۔ لوگ رات سے ہی ٹیکہ مراکز کے باہر قطار لگاکر کھڑے ہورہے ہیں لیکن دوسرے دن شام تک بھی ان کو ٹیکہ نہیں لگ رہاہے۔ ملک کی زیاد ہ تر ریاستوں کے پاس ویکسین ختم ہونے لگی ہے، کئی ریاستوں میں سیکڑوں کی تعداد میں ویکسین مراکز بند کردیے گئے ہیں۔ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے ہی کئی ریاستوں نے اپنے یہاں یکم مئی سے18سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ویکسین لگانے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔ یہ حالات اس وقت ہیں جب کہ ابھی تک صرف 45 سال سے زیادہ کے عمرکے لوگوں کو ہی ٹیکہ دیاجارہاہے۔ایسے میں صرف تصور ہی کیاجاسکتا ہے کہ جب 18سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ٹیکہ لگانے کا کام شروع ہوگا تو کیسی خطرناک صورتحال پیدا ہوگی۔
سب کو ویکسی نیٹ کرنے کی مہم کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اس مہم کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت نے نئی ویکسین گائیڈ لائن کے مطابق ٹیکہ کاری کی مرکزیت ختم کرتے ہوئے ریاستوں اور نجی اسپتالوں کوا ن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔اس سے پہلے مرکزی حکومت سینٹرلائزیشن کے تحت ٹیکہ کاری اور ویکسین کی خریداری، تقسیم اور لگانے سے متعلق تمام معاملات کی نگراں تھی، اب اچانک اس نے اپنی یہ ذمہ داری تیاگ دی ہے اور ریاستوں کو کہا ہے کہ وہ اپنے پیسے سے اور اپنی سطح سے ویکسین کی خریداری کریں۔اچانک اپنائی گئی اس پالیسی اور ریاستوں و نجی اسپتالوں کو ا ن کے حال پر چھوڑنے کے بڑے سنگین خطرات ہوسکتے ہیں اور یہ خطرات پالیسی کے اعلان کے فوری بعد سے ہی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت نئی پالیسی کے اعلان اور اس کے نفاذسے پہلے ویکسین کی دستیابی کو یقینی بناتی۔ ویکسین کی پیداوار بڑھاکر یہ گنجائش بھی نکالی جاسکتی ہے کہ اس کی سپلائی کہیں بھی متاثر نہ ہو اور سبھی ریاستوں کو یکساںطور پر اس کی تقسیم ہوسکے۔ ملک کی موجودہ صورتحال سے مقابلہ کیلئے ٹیکہ کاری ہی اب واحد ہتھیار بچا ہے، اس لیے بغیر کسی رخنہ اندازی کے پورے ملک میں ویکسین کی فراہمی اور اس تک عام لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
[email protected]
اب ویکسین کی قلت:منصوبہ بندی کا فقدان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS