ابھیشیک کمار سنگھ
گزشتہ ڈیڑھ سال میں پہلا موقع ہے جب پوری دنیا ہندوستان کو کورونا سے کانپتے ہانپتے دیکھ رہی ہے۔ جب امریکہ، برازیل، برطانیہ جیسے ممالک میں وبا عروج پر تھی، تب ہندوستان میں حالات قابو میں آتے نظر آرہے تھے۔ لیکن اس سال اپریل کے مہینہ کا آغاز اور پھر اس کے بیتتے بیتتے محسوس ہونے لگا کہ وسائل کم پڑگئے ہیں، پورا سسٹم چرمرا گیا ہے اور عوام کے سامنے بے بس ہوکر انفیکشن سے لڑتے ہوئے مرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ان سوالات کا جواب مشکل نہیں ہے۔
مریضوں کو دی جانے والی اہم دواؤں کی قلت، اسپتالوں میں کم پڑتے بستر اور پھیپھڑوں کے ساتھ امیدوں کو جلائے رکھنے والی آکسیجن کی قلت-ان سب نے حالات اتنے بدتر کردیے ہیں کہ لاشوں کے ڈھیر کے آگے شمشان چھوٹے پڑرہے ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی تک میں حالات اتنے خوفناک ہیں کہ یہاں مریضوں کو بچانے سے بڑا سوال یہ بن گیا ہے کہ مہلوکین کی آخری رسومات بھی وقت پر کیسے ہو۔ اس کے لیے بھی مہلوکین کے اہل خانہ کو بیس-بیس گھنٹے انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ جہاں تک کورونا متاثرین کوبچانے کی بات ہے تو ٹیکہ، دواؤں اور ان کے اثر کا انتظار پھر بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن جب مریضوں کو اسپتالوں میں داخل ہونے کے لیے جگہ نہ ملے، اس میں بھی بستر پر پڑے بیماروں کی آکسیجن سپلائی رک جائے تو مایوسی اور بے بسی کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دوسری لہر نے مریضوں کے علاج سے وابستہ ہر وسائل کا گلا گھونٹ دیا۔
سوال ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دنیا میں سب سے پہلے کورونا ٹیکہ بنالینے اور ٹیکہ دوستی جیسی مہموں سے دنیا کے درجنوں ممالک کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانے والے ملک کو اب اپنی مدد کے لیے دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ صرف گوگل کے خوبصورت پچائی کا دل ہی ہندوستان کی حالت زار دیکھ کر نہیں ٹوٹ گیا ہے، بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے چیف ٹیڈراس ایڈہانم گیبریسس بھی یہ کہنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں کہ ہندوستان کی حالت دل توڑنے سے بھی کہیں زیادہ بری ہے۔ ایک کے بعد ایک گزرتا ہر ہفتہ کوئی امید جگانے اور ہمت باندھنے کے بجائے اور بڑی انہونیوں کا خدشہ پیدا کررہا ہے کہ کنبھ میلہ، انتخابی ریلیوں کے علاوہ شادیوں، تہواروں، پارٹیوں میں شرکت کی شکل میں حکومت، انتظامیہ اور عوام کی سطح پر جو سنگین لاپرائیاں گزشتہ کچھ ماہ میں ہوئیں، اس نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ممالک میں سے ایک ہندوستان کا اعتماد ڈگمگا دیا۔ بالخصوص زندگی کو بچانے والی آکسیجن کا بحران ایسا ہے جس کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں قائم زبردست فرق نے شاید لاتعداد لوگوں کو بے وقت موت کے منھ میں دھکیل دیا۔
موجودہ حالات اور کورونا کی تیسری لہر کے خدشہ کے پیش نظر ملک میں میڈیکل آکسیجن کی ڈیمانڈ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ کورونا سے نمٹنے سے متعلق صحت کے نظام میں ابھی تک جس قسم کی لاپروائی اور نظرانداز کیے جانے کا عالم رہا ہے، اس میں آکسیجن کی پیداوار اور ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی کے پس منظر میں کسی تبدیلی کی گنجائش تبھی نظر آتی ہے جب ملک کی زیادہ تر آبادی کی ٹیکہ کاری ہوجائے۔ امید ہے کہ حکومت کی ہر شخص کو کووڈ ویکسین لگانے کی چھوٹ سے آبادی کے بڑے حصہ کو راحت کی آکسیجن مل سکے گی۔
آکسیجن کے موجودہ بحران کی کئی پرتیں ہیں۔ اس میں آکسیجن کا فیکٹریوں میں پروڈکشن، کارخانوں اور اسپتالوں میں اس کا استعمال، ڈھلائی اور وبا میں اچانک بڑھی ضرورت جیسے ایشو شامل ہیں۔ واضح طور پر فیکٹری سے لے کر اسپتال تک ہر ضرورت کے لیے ملک میں آکسیجن کی پیداوار کی صلاحیت 7ہزار 287میٹرک ٹن روزانہ ہے۔ یہ مقدار عام دنوں میں میڈیکل و صنعتی دونوں استعمال کے لیے کافی رہتی ہے۔ لیکن وبا کے دوسرے دور کے چند دنوں میں ہی میڈیکل استعمال میں ڈیمانڈ چار گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ 12اپریل،2021 تک آکسیجن کی جو ڈیمانڈ صرف تین ہزار 842میٹرک ٹن روزانہ تھی، وہ 22اپریل کو بڑھ کر 8785میٹرک ٹن جاپہنچی اور اس کے بعد ہر دن اس میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔ وبا کے شروعاتی دور میں بھی شعبہ طب کے لیے محض15فیصد آکسیجن کی پیداوار ہورہی تھی، جب کہ باقی آکسیجن اسٹیل و آٹوموبائل کے شعبہ کے لیے بنائی جارہی تھی۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ سنگین مریضوں کو بچانے کے لیے اسپتالوں کو بھاری مقدار میں آکسیجن چاہیے۔ لیکن طبی مقاصد سے ڈیمانڈ میں اضافہ پر آکسیجن کی پیداوار بڑھانا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے کافی زیادہ سرمایہ اور اعلیٰ درجہ کی تکنیک کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ کورونا دور میں ملک میں سینی ٹائزر، ماسک اور پی پی ای کٹ پروڈکشن کے شعبہ میں تو نئے صنعت کار اترے ہیں، مگر آکسیجن کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ حالاں کہ حکومت نے اب حالات بے قابو ہوتے دیکھ پیداوار بڑھانے کی کوشش شروع کی ہے اور توینکورین(تمل ناڈو) میںواقع ویدانتا جیسی کمپنیوں کے بند پڑے پلانٹ شروع کرکے اس میں فی الحال آکسیجن بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ ماحولیاتی اسباب سے اس پلانٹ کو بند کروا دیا گیا تھا۔ فی الحال ہندوستان میں آکسیجن کی پیداوار کرنے والی صرف 500فیکٹریاں ہیں۔ لیکن ان میں راتوں رات پیداوار میں اضافہ کرپانا ممکن نہیں ہے۔
آکسیجن کی پیداوار کیسے بڑھے، اس کے لیے آکسیجن کی پیداوار کا حساب سمجھنا ضروری ہے۔ زمین کی ساخت، ماحول(atmosphere) اور یہاں تک کہ ذی روح مخلوق کے جسم کے دوتہائی حصہ میں آکسیجن رہتی ہے۔ ہمارے ماحول میں آکسیجن کی مقدار تقریباً 21فیصد ہے۔ زیادہ تر پیڑپودھے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ لیکن صنعتی اور طبی استعمال کے لیے آکسیجن حاصل کرنے کا سائنسی عمل پیچیدہ ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو دباؤ ڈال کر ہوا کو مائع بنایا جاتا ہے اور پھر مائع ہوا کے اجزاء کو الگ کرتے ہوئے نیلی رنگ کی مائع آکسیجن حاصل کی جاتی ہے۔ یہ آکسیجن انتہائی ٹھنڈی ہوتی ہے، اس کا درجہ حرارت صفر میں 183ڈگری سیلسس کم ہوتا ہے۔ آکسیجن کو سیال کی شکل (Fluid form) میں قائم رکھنے کے لیے اس درجہ حرات کو قائم رکھنا چیلنج بھرا ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ ذخیرہ اور آسانی سے ڈھونے کے مقصد سے گیسوں کو سیال کی شکل میں ہی رکھا جاتا ہے۔
پھر مسئلہ اس کی ڈھلائی اور ذخیرہ کا بھی ہے۔ فیکٹری سے اسپتالوں تک آکسیجن کی سپلائی اور وہاں سلنڈروں کو بدلنے و بھرنے کا کام آسان نہیں ہے۔ سیال آکسیجن آتش گیر ہوتی ہے، اس لیے ٹینکر حادثہ کا شکار نہ ہو، اسے لے کر کافی احتیاط برتی جاتی ہے۔ آکسیجن فیکٹری میں ایک ٹینکر بھرنے میں 3گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ ایسے میں اسپتال تک آکسیجن لانے اور پھر اس سے سلنڈرروں کو بھرنے-بدلنے کا کام خطرناک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی اسپتال میں کمی پڑنے پر آکسیجن سپلائی کا دباؤ کم ہوجاتا ہے تو اسپتال انتظامیہ چاہ کر بھی کوئی فوری انتظام نہیں کرپاتی۔ ایسے میں کچھ ہی وقفہ پر وینٹی لیٹر اور آکسیجن پر منحصر مریض موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔
آکسیجن ڈھونے میں خاص طرح کے کرائیوجینک ٹینکروں کا استعمال ہوتا ہے۔ آل انڈیا انڈسٹریل گیس مینوفیکچررس ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں فی الحال آکسیجن ڈھونے والے ٹینکروں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے آس پاس ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمرجنسی کی حالت میں گلوبل ماسٹر جیسے طیارے اور ریلوے کی آکسیجن ایکسپریس چلانے جیسے طریقوں کو آزمایا جارہا ہے۔ موجودہ حالات اور کورونا کی تیسری لہر کے خدشہ کے پیش نظر ملک میں میڈیکل آکسیجن کی ڈیمانڈ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ کورونا سے نمٹنے سے متعلق صحت کے نظام میں ابھی تک جس قسم کی لاپروائی اور نظرانداز کیے جانے کا عالم رہا ہے، اس میں آکسیجن کی پیداوار اور ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی کے پس منظر میں کسی تبدیلی کی گنجائش تبھی نظر آتی ہے جب ملک کی زیادہ تر آبادی کی ٹیکہ کاری ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اب یکم مئی سے 18سال پورے کرچکے ہر شخص کو کووڈ ویکسین لگانے کی چھوٹ دی ہے۔ امید ہے کہ اس سے آبادی کے بڑے حصہ کو راحت کی آکسیجن مل سکے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)