فی الوقت پورا ملک کووِڈ-19 کی زد میں ہے۔ قومی راجدھانی دہلی، مہاراشٹر، گجرات اور اترپریش کی صورت حال انتہائی ڈراؤنی ہے۔ سب سے تکلیف دہ یہ ہے کہ لوگوں کو علاج کے لیے اسپتالوں میں بیڈ نہیں دستیاب ہیں۔ جن خوش قسمت مریضوں کو اسپتالوں میں بیڈ مل جا رہا ہے، وہ دوسری پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ کوئی آکسیجن نہ ملنے سے دم توڑرہا ہے تو کوئی صحت اہلکاروں کی عدم توجہی کی وجہ سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ حکومت نے جن اسپتالوں کو کووِڈ اسپتال ڈکلیئر کیا ہے وہاں بھی ضروری مقدار میں آکسیجن مہیا کرا پانے میں ناکام ہے۔ کووِڈ علاج کے لیے مختص کیے گئے بعض پرائیویٹ اسپتالوں کے مالکان نے یہ کہتے ہوئے مریضوں کو لینے سے انکار کر دیا کہ ہمارے پاس آکسیجن نہیں ہے، بہت سے اسپتال والے ان ہی مریضوں کو لے رہے ہیں جو اپنے لیے آکسیجن کا انتظام کرسکیں۔
ابھی ایک دن قبل دہلی کے جے پور گولڈن (جے جی) اسپتال میں آکسیجن گیس کی کمی کے سبب تقریباً20 مریضوں کی موت ہو گئی۔ اس سے قبل گنگا رام اسپتال میں 25 مریضوں کی موت ہوگئی تھی۔ سر گنگا رام اسپتال میں بھی آکسیجن گیس کی کمی کے سبب ہی مریضوں کی موت ہوئی تھی۔ روہنی کے سروج اسپتال کو آکسیجن گیس کی بھاری کمی کے سبب مریضوں کو داخل کرنا بند کرنا پڑا۔ تمام بیڈ پر مریض ہیں لیکن آکسیجن گیس کی شدید کمی ہے۔ اسپتال کے ذمہ داران گیس کی کمی کے سبب نئے مریضوں کو داخل نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہاں کے ڈاکٹر بلوجا نے بتایا کہ اسپتال کو 3600 لیٹر آکسیجن کی ضرورت تھی لیکن 1500 لیٹر ہی مل پائی۔ اسی طرح پنجاب میں امرتسر کے نیل کانٹھ اسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث 6 کورونا مریضوں نے دم توڑ دیا۔ اسپتال کے ایم ڈی نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں سے پہلے پرائیویٹ اسپتالوں کو آکسیجن نہیں دی جا سکتی ہے۔ اسپتال کی انتظامیہ ضلع انتظامیہ پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ اسپتالوں کو آکسیجن کی فراہمی یقینی نہیں بنا رہی ہے۔ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے بھی اسی طرح کی خبریں ہیں۔ کورونا مریضوں کو آسانی سے بیڈ دستیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ بعض اسپتالوں میں بیڈ فل ہو جانے کی وجہ سے گیلری میں ہی مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ یہاں بھی ہر جگہ آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے۔ جن پرائیوٹ اسپتالوں کو کووِڈ اسپتال بنایا گیا ہے، وہ آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مریضوں کو بھرتی نہیں کر پا رہے ہیں۔
حالانکہ اس بیچ آکسیجن فراہمی کے سلسلے میں کچھ راحت بھری خبریں آ رہی ہیں۔ اسپیشل ٹرین جھارکھنڈ کے بوکارو سے آکسیجن ٹینکر لے کر لکھنؤ پہنچ گئی ہے۔ ٹرین سے 3 ٹینکر آئے ہیں جس سے 60 ہزار لیٹر لیکویڈ آکسیجن مل سکے گی۔ 2 ٹینکر لکھنؤ میں اتارے گئے جبکہ ایک وارانسی میں۔ دریں اثنا ایک آکسیجن ایکسپریس خالی ٹینکر کے ساتھ بوکارو بھیجی گئی ہے جس میں وارانسی سے ایک ٹینکر لدے گا، یہ ٹرین آکسیجن لے کر پیر کو واپس لوٹے گی۔
کورونا بحران کے اس دور میں سب سے مایوس کن کردار حکومتوں کا ہے۔ تقریباً سبھی حکومتیں کورونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں غیرسنجیدہ نظر آرہی ہیں۔ مرکزی حکومت جس پر پورے ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ بھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ جس وقت کورونا کی دوسری لہر قومی راجدھانی سمیت پورے ملک کو اپنی زد میں لے رہی تھی، خود وزیراعظم اور مرکزی وزیر داخلہ کورونا کی وبا سے ملک کے عوام کو محفوظ کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے ایک ریاست میں اپنی پارٹی کو جیت دلانے کے لیے روڈ شو اور ریلیوں میں مصروف رہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اس وقت تمام اسپتالوں میں صرف کووِڈ انفیکشن سے متاثرہ لوگوں کا ہی علاج کیا جا رہا ہے لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ کووِڈ متاثرین کو بھی اسپتالوں میں بمشکل جگہ مل پا رہی ہے۔ دیگر تمام مریضوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ بہت سی اموات کورونا کے بجائے کورونا کی دہشت سے ہو رہی ہیں، اس لیے فی الوقت سب سے اہم یہ ہے کہ لوگ کورونا سے دہشت زدہ نہ ہوں۔ اس یقین کے ساتھ کہ موت اپنے وقت مقررہ پر ہی آئے گی، لوگ بیماری و وبا کا خوف اپنے دل سے نکال دیں۔ ماسک و دیگر احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل کریںاور اگر احتیاطی تدابیر کے باوجود کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو علاج کے ساتھ قوت ارادی اور حوصلہ کو قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
[email protected]
احتیاط اور قوت ارادی ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS