کورونا وائرس نے دیگر ملکوں میں موت کا کھیل کھیل کر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ اسے عام وائرس نہ سمجھا جائے۔اس کے باوجود ہماری سرکاریں کورونا کی نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیوںنہ ہو سکیں، یہ ایک سوال ہے۔ اس کا جواب تلاش کرتے وقت اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کئی لیڈران انتخابی کامیابیوں کو ہی اصل کامیابی کیوں مانتے ہیں؟ عام لوگوں کی ضرورتوں سے انہیں کچھ لینا دینا کیوں نہیں ہے؟ عام آدمی کا خیال اگر انہیں ہوتا، وہ اپنے فرائض کے تئیں خود کو جواب دہ مانتے تو ملک کے حالات آج یہ نہ ہوتے، لوگ اتنے پریشان نہ ہوتے۔ اسپتالوں میں بھی جگہ ہوتی، شمشانوں اور قبرستانوں میں بھی جگہ ہوتی ۔ اسپتالوں کو آکسیجن کی فراہمی ایک مسئلہ بن چکی ہے مگر یہ مسئلہ کیوں بن چکی ہے، یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔ اس کا جواب کون دے گا، یہ خود اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔ عوام لیڈروں کو جتاتے ہیں، ان سے سوال نہیں کرتے، انہیں جواب دہ نہیں بناتے۔ امید کچھ بندھی ہے کہ حالات میں جلد ہی مثبت تبدیلی آئے گی، کیونکہ حکومت نے آکسیجن اور ویکسین کے امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے اور مصیبت کی اس گھڑی میں یہ حکومت کا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ سرکار کی طرف سے جاری بیان کے حوالے سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ آکسیجن اور ویکسین کے علاوہ آکسیجن سے متعلق آلات کے امپورٹ میں بھی کسٹم ڈیوٹی اور ہیلتھ سیس میں چھوٹ دی جائے گی۔ یہ چھوٹ فوری اثر کے ساتھ نافذ ہو گئی ہے، اس کا نفاذ اگلے تین مہینے تک کے لیے ہوگا۔آسٹریلیا، فرانس، چین اور پاکستان نے یہ بات کہی ہے کہ وہ ہندوستان کی اس مشکل گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ ماریسن نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ بھارت کتنا مضبوط اور بھروسہ مند ملک ہے۔ ‘ تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’اس مشکل وقت میں کورونا کی لہر کا سامنا کر رہے بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ امید کی جانی چاہیے کہ عام دنوں میں ہندوستان کی دوستی کا دم بھرنے والے امریکی لیڈران مصیبت کے اس دور میں ہندوستان کا ساتھ دینے کی بات ہی نہیں کریں گے، دوستی کا عملی اظہار بھی کریں گے۔
کئی لیڈران مذمتی بیان جاری کر کے یا عوام کے لیے رہنما اصول بتاکر یوں سمجھتے ہیں جیسے انہوں نے عظیم فرض ادا کر دیا ہو لیکن یہ وقت مذمتی بیانات جاری کرنے کا نہیں، صرف رہنما اصول بتانے کا نہیں، یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ کورونا وائرس عام بیماری نہیں، یہ ایک عالمی وبا ہے اور اس کا علاج آسان نہیں ہے۔ اگر بروقت علاج نہ ملا تو اس میں غریب مرے گا مگر امیر بھی بچ نہیں سکے گا۔ دہشت کی وجہ سے کئی لوگ ہلکان ہو رہے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت کورونا کا علاج نہیں، خوف سے نکل کر ہی اس پر جیت حاصل ہوگی۔ وقت کیسا بھی ہو، ٹی آر پی بڑھانے کی فکر کرنے والے چینل ٹی آر پی کی ہی فکر کریں گے، یہ نہیں بتائیں گے کہ آکسیجن کی سطح کا تھوڑا کم ہو جانا یا کورونا کی علامتوں کا نظر آنا، یہ اشارہ نہیں ہوتا کہ آدمی بچے گا نہیں۔ ان چینلوں کا رول کورونا کی ابتدا سے ہی اتنا اچھا نہیں رہا کہ ان پر یقین کیا جائے۔ یہ وہی چینل ہیں جو تبلیغی جماعتوں کے چند ہزار لوگوں کو پورے ملک کے لیے خطرناک بتا رہے تھے، چنانچہ ان کے لیے حقائق کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اہمیت اپنے مفاد کی ہے۔ ان کے لیے کورونا میں مرنے والے لوگ ایک گنتی کی طرح ہیں مگر ہر آدمی کی اہمیت ہے، اس کا ایک رول ہے۔ ایک آدمی کی موت ایک آدمی کی موت نہیں ہے، کئی رشتوں کی موت ہے، کیونکہ وہ آدمی کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی، کسی کا شوہر، کسی کا باپ، کسی کا سمدھی، کسی کا محسن بھی ہوتا ہے، اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر نفرت کا کیک بانٹنے والے چینلوں کے ذمہ داروں کی سوئی تو ٹی آر پی پر آکر اٹک جاتی ہے، ان کی سمجھ میں یہ باتیں کیا آئیں گی؟ عام لوگوں کو اپنا خیال خود کرنا ہوگا، اپنوں کا خیال خود کرنا ہوگا۔ اتنی تو انسانیت دکھانی ہی چاہیے کہ مرتے وقت یہ شرمندگی محسوس نہ ہو، پیدا انسان ہوئے مگر جئے انسان کی طرح نہیں۔ موت جب آنی ہے تب ہی آئے گی، جیسے آنی ہے ویسے ہی آئے گی، جہاں آنی ہے وہیں آئے گی، اس لیے گھبرانا موت سے نہیں ہے، فکر یہ نہیں کرنی کہ میرے بعد میرے گھروالوں کا کیا ہوگا، یقین اس بات پر رکھنا ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں کہ جس کا علاج نہیں اور آدمی اشرف المخلوقات ہے، اسے ہر حال میں پرامید رہنا چاہیے۔ ناامید انسان موت سے پہلے ہی زندگی ہار جاتا ہے، برے حالات پر فتح وہی پاتا ہے جو ڈر کر نہیں، ڈر سے آگے کی سوچتا ہے۔
[email protected]
حالات کی سنگینی سمجھنا ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS