وبھوتی نارائن رائے
ملک کے سامنے اکثر بہت بڑے بحران آتے رہتے ہیں اور کئی مرتبہ تو یہ اس کے وجود کو ہی چیلنج دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ جنگ ا ور وبا، دو ایسے ہی مواقع ہیں، جب کسی ملک کو بڑے خطرے کا احساس ہوسکتا ہے اور یہی وقت ہے جب اس بات کا بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر مضبوطی سے زمین میں پیر جماکر برعکس و مشکل حالات سے لڑنے کا کتنا مادّہ ہے۔ ایسا ہی ایک امتحان دوسری عالمی جنگ کے دوران نئے وجود میں آئے ملک سوویت یونین کے سامنے آیا تھا، جب اسٹالن نے الگ الگ نسلی گروہوں میں تقسیم معاشرہ کو ایک محب وطن جنگ مشینری میں تبدیل کردیا تھا۔ یہی چیلنج ہندوستان کے سامنے بھی کورونا کی پہلی لہر کے بعد آیا، جب ہم ایک قوم کی شکل میں خود کو ثابت کرسکتے تھے اور وبا کے اگلے حملہ کے لیے تیار ہوسکتے تھے۔ دیکھنا ہوگا کہ ہندوستان اور اس کے ادارے کورونا کی دوسری لہر آنے تک اس کسوٹی پر کتنا کھرے اترے؟ یہ جانچ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دوسری لہر غیرمتوقع نہیں تھی اور اس کی پیش گوئی مسلسل کی جارہی تھی۔
وبا جیسی آفت ہمیں کچھ طویل مدتی سبق بھی دے سکتی ہے۔ مثلاً اگر پولیس ٹریننگ میں کچھ بنیادی تبدیلیاں ہوسکیں تو اس طرح کی کسی اگلی آفت میں وہ بہتر کردار نبھا سکے گی۔ جس طرح ہم نے قدرت کے ساتھ چھیڑچھاڑ کررکھی ہے، اس کے نتیجے میں ہمیں ہر دہائی ایسی آفتوں کا انتظار کرنا چاہیے۔ نئے ٹریننگ پروگراموں کے ذریعہ پولیس اہلکاروں کو سمجھانا ہوگا کہ 1860کی دہائی میں جب وہ کھڑے کیے گئے تھے، تب چیلنجز بالکل مختلف تھے۔ آج صرف چوری، ڈکیتی یا قتل ان کی تشویش نہیں ہوسکتے۔
وبا کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ شدید ہے۔ پہلی کا دم روزانہ لاکھ متاثرین پہنچتے پہنچتے ٹوٹ گیا، لیکن دوسرے دور میں ڈھائی لاکھ پار کرنے کے بعد بھی اس کی رفتار آہستہ نہیں ہورہی ہے۔ دونوں لہروں کے درمیان 8-9ماہ کا فرق ہے اور ماہرین نے پہلے سے اس کی وارننگ دے رکھی تھی۔ فلو کے گزشتہ تجربے بھی یہی بتاتے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہوا کہ ٹیسٹنگ، ایمبولینس، اسپتالوں میں بیڈ، زندگی بچانے والی دوائیں، ویکسینیشن، آکسیجن اور یہاں تک کہ بدقسمتی سے مریض کے نہ بچ پانے کی حالت میں شمشان گھاٹ تک، ہر شعبہ میں کمی ہی کمی تھی؟ کیا ایک ملک کے طور پر اتنے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے میں ہم ناکام رہے؟ بہت سے سوالات ہیں، جو ہمیں پریشان کرسکتے ہیں، کیا سال بھر میں ہم اپنے بنیادی ڈھانچہ کو دوگنا نہیں کرسکتے تھے کہ نئی لہر آنے پر بے بسی سے دیکھتے رہنے پر مجبور نہ ہوجاتے؟ کیا کنبھ میلہ اور الیکشن انسان کی زندگی سے زیادہ ضروری ہیں۔ بہت سے سوالات ہیں، جن کے آسانی سے جواب نہیں دیے جاسکتے۔ اگر ہم ایک بالغ النظر معاشرہ ہیں تو ہمیں ان سوالات سے بالکل بچنا نہیں چاہیے اور ایمانداری سے ان سے نبردآزما ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میں نے اس مشکل وقت میں ہندوستان کے مختلف اداروں کے مظاہروں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور مجھے اب تک یہی سمجھ میں آیا کہ ان کا مظاہرہ ملاجلا سا ہی ہے۔ گزشتہ لہر کے مقابلہ طبی عملہ کے سیفٹی ملبوسات یا پی پی ای کی حالت بہتر ہے، اس لیے وہ مریضوں کے نزدیک جانے سے کم پرہیز کررہے ہیں۔ ایمبولینس کی دستیابی بھی پہلے سے زیادہ ہے، لیکن ان کی لوٹ بھی زیادہ ہے۔ بڑے شہروں میں اوسطاً مریضوں کو ایک ٹرپ کی 6سے 10ہزار روپے تک ادائیگی کرنی پڑرہی ہے۔ اسپتالوں میں بستر خاص طور سے آئی سی یو میں مشکل سے مل پارہے ہیں۔ سفارش اور پیروی میں یقین رکھنے والا ہماراقومی کردار مکمل طور پر واضح ہے۔ اسی طرح ضروری دواؤں اور آکسیجن میں کالابازاری بھی جاری ہے۔ کل ملاکر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ملک اپنے بنیادی ڈھانچہ میں متوقع بہتری کرپایا ہوتا تو اس سے وابستہ اداروں کا مظاہرہ کہیں بہتر رہا ہوتا۔
پولیس ایمرجنسی میں کسی بھی ملک کا سب سے قابل دید بازو ہوتی ہے۔ میری دلچسپی وبا کے دور میں اس کی بنتی بگڑتی شبیہ کو سمجھنے میں زیادہ ہے، اس لیے میں توجہ سے اخبارات اور چینل کو اسکین کرتا رہتا ہوں۔ میری سمجھ ہے کہ اس مرتبہ اس کا مظاہرہ کہیں بہتر ہے۔ ایک بڑا سبب تو شاید یہ ہے کہ گزشتہ مرتبہ کے خراب ’آپٹکس‘ سے سبق لیتے ہوئے ملک نے مہاجروں کو ان کے روزگار والے شہروں میں زبردستی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے سمجھ آگیا کہ کھانے، پینے یا رہنے کا انتظام کرنے میں بے بس لوگوں کے لیے اگر اس نے ٹرینیں یا روڈٹریفک جبراً بند کرنے کی کوشش کی تو غریب غربا گزشتہ سال کی طرح پیدل ہی اپنی منزل کی طرف نکل پڑیں گے۔ گزشتہ مرتبہ وہ نکلے تو انہیں روکنے کا کام فطری طور پر پولیس کو کرنا پڑا۔ وہ جتنا غیرانسانی فیصلہ تھا، اتنا ہی غیرانسانی اسے نافذ کرانے کا طریقہ ثابت ہوا۔ ساری جگ ہنسائی پولیس کی ہوئی۔ اس مرتبہ نہ تو نقل مکانی کو روکنے کی کوشش ہوئی اور نہ ہی اضافی جوش میں کرفیو لگائے گئے، لہٰذا بہت سے ناخوشگوار حالات سے پولیس بچ گئی۔ گزشتہ مرتبہ کی ہی طرح اس مرتبہ بھی کئی انسانی ہمدردی اور مدد کے لیے آگے آئے ہاتھوں کی کہانیاں پڑھنے سننے کو ملیں۔ گزشتہ لہر میں میڈیا نے ان کی تشہیر کی تھی، اس لیے فطری تھا، اس مرتبہ بہت سارے پولیس اہلکاروں نے ان سے ترغیب حاصل کی ہو۔ کل ملاکر، ابھی تک تو ایک ادارہ کے طور پر پولیس کا مظاہرہ ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہا ہے۔
وبا جیسی آفت ہمیں کچھ طویل مدتی سبق بھی دے سکتی ہے۔ مثلاً اگر پولیس ٹریننگ میں کچھ بنیادی تبدیلیاں ہوسکیں تو اس طرح کی کسی اگلی آفت میں وہ بہتر کردار نبھا سکے گی۔ جس طرح ہم نے قدرت کے ساتھ چھیڑچھاڑ کررکھی ہے، اس کے نتیجے میں ہمیں ہر دہائی ایسی آفتوں کا انتظار کرنا چاہیے۔ نئے ٹریننگ پروگراموں کے ذریعہ پولیس اہلکاروں کو سمجھانا ہوگا کہ 1860کی دہائی میں جب وہ کھڑے کیے گئے تھے، تب چیلنجز بالکل مختلف تھے۔ آج صرف چوری، ڈکیتی یا قتل ان کی تشویش نہیں ہوسکتے۔ عام حالات اور مشکل وقتوں کی پولیسنگ کی توقعات اور مظاہرے مختلف ہوں گے۔ ویسے تو یہ صحت خدمات جیسے دوسرے شعبوں کے لیے بھی ضروری ہے لیکن پولیس فورس کے لیے یہ سوچ اس لیے زیادہ اہم ہے کہ اس میں سروس ٹائم میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر ٹریننگ کا تصور پہلے سے موجود ہے۔ وبا کے دوران مریضوں کی شناخت سے لے کر انہیں اسپتال پہنچانے تک میں اس کا رول ہوسکتا ہے۔ راستہ میں زندگی محفوظ رکھنے والے طریقوں کے لیے انہیں ٹریننگ دی جانی چاہیے۔ ایک مجرم اور بیمار انسان کے سلوک میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور فطری ہے کہ اس کی توقعات بھی مختلف ہوں گی۔ ایک اوسط پولیس اہلکار کو اپنے سلوک میں بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اس کے لیے نئے طرح کے ٹریننگ پروگراموں کی ضرورت ہوگی۔ کورونا کی اس دونوں لہروں سے حاصل تجربات کو ٹریننگ کے نصاب میں شریک کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)